پرانی اور نایاب کاریں: پاکستانی امراء کا مہنگا شوق
پاکستان کے امیر طبقے میں کلاسیکی ماڈلز کی قدیم اور نایاب کاریں جمع کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ افغان بادشاہ کی رولز رائس ہو یا بھارت کے آخری وائسرائے کی کار، ان کے سامنے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پرانی کاریں رکھنے کے شوقین مالکان کی تنظیم "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے زیر اہتمام سالانہ کار شو کا انعقاد کیا گیا۔
ہر سال کاروں کے شوقین خواتین و حضرات بڑی تعداد میں اس کار شو کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس کار شو میں شرکت کرنیوالوں کے لئے کوئی داخلی ٹکٹ بھی نہیں رکھا جاتا جبکہ شرکاء ان گاڑیوں میں بیٹھ کر یا ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں بناتے اور تصاویر کھنچواتے ہیں۔
”کیڈلاک فلی وڈ" امی یہ کار انیس سو انسٹھ میں امریکہ نے تیار کی تھی۔ اس کار کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر ایوب خان کے زیر استعمال رہی ہے۔ اس کا منفرد اور پروقار ڈیزائن اسے اب بھی لوگوں کے لئے انتہائی جاذب نظر بنائے ہوئے ہے۔
"منی کوپر" انیس سو چھپن میں سوئٹزر لینڈ میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے حل کے طور پر الیکس ایسی گونیس کا ایک جواب تھا۔ بیالس سال تک تیار ہونیوالی اس کار کے چون لاکھ یونٹس فروخت کیے گئے۔
انیس سو اٹھاون میں تیار کی گئی امریکن کمپنی "شیور لیٹ " کی اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ کار اب بھی اتنی شاندار ہے کہ اس میں بیٹھ کر آپ کو اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔
اس مہنگے شوق کا سب سے مشکل مرحلہ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس کا حصول ہوتا ہے۔ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس خصوصی طور پر امریکا یا پھر یورپی ملکوں سے منگوائے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے غیر ملکی اخباروں میں اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں۔
انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی برطانوی کار کمپنی کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" کا اندرونی منظر اس کار کی سادگی کی گواہی دیتا ہے۔ پاکستان میں نایاب اور کلاسک کاروں کے کلب کے مطابق کاریں جمع کرنے والے افراد اس خطے میں گزشتہ صدی کی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں۔
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
کار شو میں رکھی گئی اکثر گاڑیوں کے ماڈل کافی پرانے ہونے کے باوجود مالکان نے انہیں خاصی بہتر حالت میں رکھا ہوا ہے۔ زیر نظر تصویر جرمن میڈ "فوکس ویگن بیٹل" کے انیس سو ساٹھ کے ماڈل کی ہے۔
اس کار شو میں رکھی ہوئی لال اور کالے رنگ کی سب سے پرانے ماڈل کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" تھی جو انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی۔ اس کار کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ اس کے ساتھ گہرے نیلے رنگ میں کھڑی فرانسیسی کار"پیجو" کا ماڈل انیس سو انسٹھ ہے۔
جرمن کار کمپنی 'فوکس ویگن کی ایک بغیر چھت والی دلکش کار کی ڈرائیونگ سیٹ کا منظر۔ انیس سو پچپن میں جب اس کار کو فروخت کے لئے پیش کیا گیا تو اس کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے تھے۔
انیس سو چالیس میں تیار کی گئی "بیوک" کار کی پیدوار کے پہلے ہی سال ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سات سو یونٹ فروخت ہوئے۔ آٹھ سلنڈر اس گاڑی کی خاص بات اس کا منفرد ڈیزائیں اور کشادہ انٹیرئیر ہے۔
راولپنڈی کی ایک سیاسی شخصیت اور سابق تحصیل ناظم راجہ حامد نواز بھی ہر دفعہ اپنے پرانے ماڈل کی گاڑیوں کے ساتھ اس کار شو میں نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اپنی انیس سو چھیاسٹھ ماڈل شیورلٹ کار کے ہمراہ شو میں شریک ہوئے۔
امریکی کمپنی شیور لیٹ نے انیس سو تریپن میں پہلی سپورٹس کار سیریز "کوروٹ" کے نام سے متعارف کرائی اور پھر اس کی مقبولیت کبھی بھی کم نہ ہو سکی۔ زیر نظر تصویر انیس سو بیاسی میں تیار کی گئی ایک "کوروٹ" سیریز کار کی ہے۔ اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کے انجن کی طاقت چھ ہزار سی سی ہے جس کی وجہ سے اس کی رفتار انتہائی تیز ہے۔
کار شو میں ایک ایسی گاڑی بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی جس کے مالک کا دعویٰ تھا کہ اس گاڑی کو انہوں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھوں سے تیا ر کیا ہے یعنی کہ یہ ایک "ہینڈ میڈ گاڑی" ہونے کی وجہ سے لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔