پرویز مشرف کی درخواست ضمانت منظور
20 مئی 2013پیر کے روز راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کےجج حبیب الرحمان نے سابق فوجی صدر کو دس دس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ مقدمے کی پیروی کرنے والے سرکاری وکیل چودھری اظہر نے سابق صدر کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت میں دلائل دیے۔ جبکہ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل کو اس مقدمے میں سیاسی مقا صد کے لیے پھنسایا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کا نام ان کی ملک سے عدم موجودگی میں اس مقدمے میں شامل کیا گیا۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ بےنظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات پرویز مشرف نے جاری نہیں کیے تھے بلکہ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کا فیصلہ مقتولہ کے شوہرآصف علی زرداری کا تھا۔
عدالت نے دونوں وکلا ء کے دلائل سننے کے بعد جنرل مشرف کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔ جنرل مشرف جو اس سال خود ساختہ جلاوطنی ترک کر کہ پاکستان آئے تھے، کو ججوں کی نظر بندی،آئین توڑنے پر غداری کے علاوہ بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل جیسے مقدمات کا سامنا ہے۔ ان کو گرفتار کر کے اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر وہاں رکھا گیا ہے۔ تاہم ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد جنرل مشرف کو بظاہر ان مقدمات کے حوالے سے کچہ ریلیف ملتا دکھائی دے رہاے۔ اس کا آغاز اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف مقدمے کے مدعی کا پیروی سے دستبرداری کے فیصلے کے بعدا ہوا۔
اس مقدمے مدعی اور سپریم کورٹ کے وکیل اسلم گھمن کا کہنا ہے کہ انہوں نے وسیع ملکی مفاد میں مقدمے کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاسی قیادت ملک میں قومی یکجہتی کی فضاء قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے ملک کے اتنے بڑے لیڈروں کا اس معاملے میں مؤقف ہے تو میں بھی ان کے اس جذ بے سے متاثر ہوا ہوں دوسرا کیونکہ ان دنوں مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے تو اس میں بنیادی طور پر آئین کے تحت غداری کا مقدمہ وفاق حکومت نے ہی شروع کرنا ہے‘‘۔
جنرل مشرف کے خلاف ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے کی سماعت بائیس مئی کو ہو گی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمے کی پیروی نہ ہونے کی وجہ سے سابق صدر کو اس مقدمے میں بھی ضمانت مل سکتی ہے۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جنرل مشرف کے معاملے پر کسی بھی قسم کی کشیدگی کو روکنے کے لیے بعض ملکی اور غیر ملکی طاقتیں ان کی پاکستان سے بیرون ملک واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم جنرل مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل کو بین الاقوامی حمایت حا صل ہونے کے باوجود ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جب شکایت کنندہ ہی دستبردار ہو جائے تو پھر مقدمہ تاش کے پتوں کی طرح گر جاتا ہے تو یہ سارے مقدمات ختم ہو جا ئیں گے۔ جنرل مشرف نے اپنی جو پالیسی رکھی ہے وہ یہی ہے کہ سب کا شکریہ ادا کریں جو طاقتیں ان کی طرف سے مصالحت کرانا چاپتی ہیں لیکن وہ ملک میں رہیں گے کیونکہ یہ ان کا اپنا ملک ہے باقی ان کا ملک کے اندر باہر آنا جانا لگا رہے گا جب مقدمات ختم ہو جائیں گے‘‘۔
بعض قا نونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدعی کے دستبردار ہو جانے کے باوجود ججوں کی نظر بندی کے مقدمے میں شامل کی گئیں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے سبب جنرل مشرف عدالت کے رحم وکرم پر ہوں گے۔
رپورٹ: شکور رحیم
ادارت: عدنان اسحاق