پسینے سے صحت کا حال بتانے والی نئی ڈیوائس
28 جنوری 2016موجودہ رِسٹ بینڈز آپ کی صحت کے بارے میں مالیکیولوں کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو نہیں جانچ سکتے۔ یعنی وہ یہ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ آپ کے جسم کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور آیا وہ نارمل ہیں یا خطرناک۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برکلے اور اسٹینفورڈ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین اور انجینیئرز کے مطابق ان کی بنائی ہوئی ڈیوائس آپ کے پسینے کا تجزیہ کر کے یہ کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ’اسمارٹ ہیڈ بینڈ‘ یا ’اسمارٹ رِسٹ بینڈ‘ کو سر پر یا کلائی پر باندھا جا سکتا ہے۔ اس ڈیوائس میں لچکدار سینسر اور مائیکرو پروسیسرز لگے ہیں جو آپ کی جلد کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔
یہ ڈیوائس آپ کے پسینے میں موجود کیمیائی اجزاء کا تجزیہ کرتی ہے، جس میں سوڈیم، گلوکوز، پوٹاشیم اور لیکٹیٹ وغیرہ کی مقدار معلوم کرنے کے علاوہ جلد کے درجہ حرارت کی پیمائش بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ پٹھوں کی تھکن، پانی کی کمی یا جسم کے خطرناک حد تک بلند درجہ حرارت کو بھی جانچتی رہتی ہے۔ اس طرح حاصل ہونے والا تمام تر ڈیٹا فوری طور پر اور مسلسل اسمارٹ فون کی ایک ایپ کو منتقل کیا جاتا ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے شعبہء انجینیئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے پروفیسر علی جاوی کے مطابق، ’’انسانی پسینے میں بہت سی اہم معلومات موجود ہوتی ہیں۔ اس طرح جسم کے اندر داخل نہ کیے جانے والے سینسرز کے لیے یہ بہت اہم جسمانی مائع ہے۔‘‘ اس ڈیوائس اور تحقیق کے بارے میں رپورٹ بدھ 27 جنوری کو تحقیقی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی۔ علی جاوی اس رپورٹ کے مرکزی مصنف ہیں۔
بعض بیماریوں اور نشے کے استعمال کی تشخیص کے لیے پسینے کو پہلے ہی سے استعمال کیا جا رہا ہے تاہم اس مقصد کے لیے اس پسینے کو تجزیے کے لیبارٹری بھجوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزن میں ہلکے، لچکدار اور جسم پر پہنے جانے والے مانیٹرز کی عدم موجودگی کے باعث پسینے کی فی الفور اور لگاتار مانیٹرنگ اب تک ممکن نہیں تھی۔ اس تحقیق کے مصنفین کے مطابق ان کی نئی ڈیوائس میں نہ صرف یہ تمام فیچرز شامل ہیں بلکہ یہ مستقبل میں اس کے دیگر طریقہ ہائے استعمال کا نقطہ آغاز بھی ہے۔
اس تحقیق کے شریک مصنف جارج بروکس کے مطابق، ’’جسم میں داخل کیے بغیر تجزیہ کرنے والی اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی وقت یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ کو سوئی لگائے بغیر یا پیشاب وغیرہ کا نمونہ حاصل کیے بغیر بہت سی بیماریوں کی تشخیص ہو سکے۔‘‘