پشاور اسکول حملہ: والدین تاحال انکوائری رپورٹ کے منتظر
3 فروری 2015اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے حکومت کو 48 گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس دوران حکومت انہیں اس واقعے میں ملوث افراد اور اب تک کی تحقیقات سے آگاہ نہ کر سکی تو وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں گے۔
دوسری جانب اس حملے میں زخمی ہونے والے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج طالب علم احمد نواز کو علاج کے لیے لندن بھیجنے کے حکومتی اعلان کو بھی تاحال عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ اس طالب علم کے علاج کے لیے وفاقی حکومت نے 36 ملین روپے مختص کیے تھے لیکن انتظامات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے احمد نواز آج بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہی زیر علاج ہے۔
اس سانحے کے عینی شاہد زیادہ تر بچے آج بھی خوف کا شکار ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے انہیں اس شدید نفسیاتی دھچکے کے اثرات سے نکالنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات بھی ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج آرمی پبلک سکول کے طالب علم احمد نواز کے والد محمد نواز اور دیگر رشتہ داروں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارا پورا خاندان ذہنی مریض بن گیا ہے۔ حکومت نے علاج کے لیے ہمارے پاسپورٹ رکھ لیے لیکن اب وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ ہمیں برطانوی سفارتخانے جانے کو کہا گیا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ حکومت نے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں اب تک نہ تو کوئی داخلہ فیس جمع کرائی ہے اور نہ ہی ویزوں کے لیے ہمارے فارم جمع ہوئے ہیں۔‘‘
محمد نواز کا مزید کہنا تھا کہ حکومت انہیں پاسپورٹ واپس کرے تو وہ اپنے بیٹے کو علاج کے لیے خود ہی بیرون ملک لے کر جائیں گے۔ ’’اس مقصد کے لیے میں اپنی تمام تر جائیداد فروخت کر دوں گا۔ کہیں سے بھی رقم کا انتظام کروں گا۔ میرے بچے کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔‘‘
جب محمد نواز سے پشاور میں سکیورٹی کی صورت حال کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر حکام 28 اگست کو ملنے والی اطلاع کے بعد سکیورٹی کی صورت حال بہتر بناتے تو آرمی پبلک اسکول پر حملے کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ محمد نواز نے بار بار مطالبہ کیا کہ اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو بے نقاب کر کے انہیں سزائیں دی جائیں۔
سولہ دسمبر کے اس حملے میں مارے جانے والے طلبا کے والدین صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ اس دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہو جانے والے اسفند خان، یاسین خان، مبین اور رفیق بنگش کی ماؤں کا کہنا تھا، ”حکومت نے سولہ دن کے اندر اس واقعے کی انکوائری رپورٹ سامنے لانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہم نے احتجاج بھی کیا۔ لیکن کوئی بھی ذمہ دار اہلکار ہماری فریاد سننے کے لیے بھی نہیں آیا۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اسکول آڈیٹوریم میں بےگناہ بچوں کے قتل عام میں ملوث غداروں، دہشت گردوں کو سامنے لا کر انہیں سرعام سزا دی جائے۔
یاسین خان کی والدہ کا کہنا تھا کہ زندہ بچ جانے والے بچوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی ٹیچر انہیں ڈرائنگ بنانے کے لیے کہے تو وہ ’ڈیڈ باڈیز‘ کی تصاویر بناتے ہیں۔ جن بچوں نے یہ خوفناک مناظر دیکھے ہیں، سات ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کی کونسلنگ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی انکوائری کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر سامنے نہیں لایا جا رہا جبکہ بچوں کے علاج میں بھی تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کے لیے بیرون ملک دوروں کا اعلان بھی کیا تھا۔ حکومتی اعلان کے مطابق بارہویں جماعت کے بچوں کو دس دس دن کے لیے چین، ملائیشیا اور ہانگ کانگ میں سے کسی ایک کے دورے پر سرکاری خرچے پر بھیجا جائے گا جبکہ ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ متاثرہ بچے اپنے والدین کے ساتھ عمرے اور مقدس مقامات کی زیارت کے لیے چلے جائیں۔
عمرے پر جانے کے لیے 30 خاندانوں نے رضا مندی ظاہر کی ہے جبکہ دس کے قریب بچوں اور ان کے والدین نے دیگر ممالک کے دوروں کی خواہش کی ہے۔ عمرے پر جانے کے خواہش مند والدین میں طفیل خٹک بھی شامل ہیں۔ ان کا ایک بیٹا شیر شاہ پشاور اسکول سانحے میں مارا گیا جبکہ دوسرا بیٹا بھی اسی اسکول کا طالب علم ہے۔ طفیل خٹک نے اس حکومتی فیصلے کو اچھا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دوسرا بیٹا احمد شاہ ابھی تک اسکول جانے پر تیار ہی نہیں ہے۔ ’’وہ کہتا ہے کہ اسکول جاتے وقت اسے اپنا بھائی اور اپنے ہم جماعت یاد آتے ہیں۔ وہ یہ نہیں بھول سکتا کہ کس طرح اس کے کلاس فیلوز کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔‘‘ طفیل خٹک کا کہنا تھا کہ حکومت کی ایسی کوششوں سے بچوں کی ذہنی تکلیف میں کمی آئے گی۔
حکومت نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایسے بچوں کے لیے ’ٹراما سینٹر‘ کے قیام کا اعلان بھی کیا لیکن ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے غمزدہ والدین کو جس علاج کی ضرورت ہے، اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے نے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے ساتھ بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا، ’’ان بچوں اور ان کے والدین کو چند دن کے لیے اس ماحول سے باہر نکالنا یقیناﹰ ان کی نفسیاتی بحالی میں مددگار ثابت ہو گا۔‘‘ تاہم ڈاکٹر خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سانحہ اتنا بڑا ہے کہ محض دس روز میں اسے بھلانا ممکن ہی نہیں۔
ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے مطابق بہتر یہ ہوتا کہ حکومت کسی دوسرے ملک کے ساتھ بات چیت کر کے اس سانحے کے شاہد تمام بچوں کو کچھ عرصے کے لیے تعلیم کی خاطر وہاں کسی اسکول میں داخل کرا دیتی۔ ’’یوں یقینی طور پر ایسے بچوں کا علاج بھی ہو جاتا اور پھر کچھ عرصے بعد وہ پڑھائی کے قابل بھی ہوجاتے۔‘‘