پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
آرمی پبلک سکول پر حملے کو تقریباﹰ ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن متاثرہ بچوں کے والدین کے ذہنوں میں ابھی تک درجنوں ایسے سوالات گردش کر رہے ہیں، جن کا حکومت اور سکیورٹی اداروں سمیت کوئی بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔
پشاور میں پیش آنے والا سانحہ سینکڑوں والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ بن چُکا ہے۔ ایک برس پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 148 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ والدین کے خواب ایسے چکنا چور ہوں گے، کبھی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
والدین کے مطابق حملہ آوروں کے بارے میں حکومتی موقف میں بھی تضاد ہے اور آج تک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا، ’’اس واقعے سے چند ماہ قبل سکیورٹی میں کمی کیوں کی گئی؟ سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور والدین کو ان تمام سوالات کے جواب چاہیں۔‘‘
ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ بچے اور ان کے والدین کے دکھوں میں کمی نہیں آئی۔ سائکاٹرسٹ ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے مطابق پچاس فیصد بچے ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ والدین میں ان بچوں کی زیادہ تر مائیں اب بھی خواب آور ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔
مبین شاہ کی والدہ سے بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مبین شاہ آفرید ی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نیت سے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کہ حساس علاقے میں موجود فوج کی نگرانی میں میرا بیٹا بھی محفوظ رہے گا لیکن دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا۔ اب بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس قدر محفوظ علاقے میں چند لوگ کیسے داخل ہوئے اور کس طرح قتل عام کیا؟ ‘‘
شہزاد اعجاز کے والد میاں اعجاز احمد کا کہنا تھا، ’’خود اپنے جواں سال بچے کو نہلایا تھا، اس کے جسم میں گیارہ گولیاں لگی تھیں، یہ کس طرح بھول سکتا ہوں۔ یہ غم ہم قبر تک لے کر جائیں گے۔ میرا بیٹا گیارہ گولیاں کھا کے کس طرح مرا ہوگا؟ مجھے اس کا گناہ بتایا جائے۔‘‘
حکومت کی طرف سے زخمی بچوں کے لیے علاج کی سہولیات تو فراہم کی گئیں لیکن حملے کے ذمہ دار آج بھی حکومتی گرفت میں نہیں آ سکے اور یہ بات والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران حکومت نے ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں لیکن زیادہ تر والدین ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔
’آرمی پبلک سکول شہدا فورم‘ کے صدر عابد رضا بنگش کا کہنا تھا، ’’اکتوبر میں انتظامیہ کو اس طرح کے واقعے کی اطلاع دی گئی لیکن پھر بھی سکیورٹی بہتر نہ ہوسکی۔ خو د پولیس کے سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ واقعہ پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا لیکن کسی کو سزا نہیں ہوسکی۔ اگر سولہ دسمبر تک حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو شہدا پیکج سمیت تمغے اور ایوارڈ بھی واپس کریں گے۔‘‘
والدین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بناکر اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے۔ متاثرہ والدین کے مطابق نہ تو حکومت اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکی اور نہ ہی بچوں کو قومی اعزاز دیے گئے۔
حکومتی اداروں کی ’سرد مہری‘ نے والدین کو مایوس کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے اس دوران ’اے پی ایس کے شہدا‘ کے نام سے ہونے والی تمام سرکاری تقریبات سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور چشم دید گواہ ابھی تک اس بھیانک خواب سے نہیں نکل سکے۔ واقعے کے چشم دید گواہ طالب علم ذکریا اعجاز نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے، ’’میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن کالج میں سیکنڈ ایئر کا پرچہ تھا۔ زیادہ تر طلبا آڈیٹوریم میں تھے اور جب میں اپنے والد سے ملا اور پتہ چلا کہ میرا بھائی بھی اس میں شہید ہوا ہے تو پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘
ڈاکٹروں کے مطابق پشاور اسکول حملے میں زخمی ہونے والے بچے ابھی تک شدید خوف کا شکار ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مسلسل ان بچوں کا علاج کیا جائے تاکہ انہیں اس صدمے سے باہر نکالا جاسکے۔