پشاور بم حملے: طالبان کی طرف سے تردید
12 جون 2011پشاور میں یہ دہرے بم دھماکے مئی میں امریکی فوجی کمانڈوز کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان میں اب تک ہونے والے خونریز ترین حملوں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ ان دھماکوں میں پشاور شہر کے خیبر سپر مارکیٹ نامی بہت مصروف علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔ ان بم دھماکوں سے ایک ہوٹل، بہت سی دکانوں اور طلبا کی ایک رہائش گاہ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ان حملوں میں پہلا بم دھماکہ مقامی وقت کے مطابق ہفتہ کی رات تقریباﹰ ساڑھے گیارہ بجے کیا گیا۔ جب بہت سے امدادی کارکن اور عام شہری فوری طور پر موقع پر جمع ہو گئے، تو ایک دوسرا بم دھماکہ ہوا جو انتہائی شدید تھا۔ حکام کے مطابق یہ دوسرا دھماکہ غالباﹰ ایک خود کش حملہ تھا، جس کی آواز کئی میل دور تک سنی گئی۔
پشاور پولیس کے ایک سینئر عہدیدار اعجاز خان نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں دھماکوں میں زخمی ہونے والے افراد میں سے کل رات ہسپتال میں ہونے والی ہلاکتوں کے علاوہ مزید چار زخمی آج اتوار کو دم توڑ گئے۔ یوں اتوار کی صبح تک ان دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 39 ہو چکی تھی۔
پشاور سے مو صولہ رپورٹوں کے مطابق ان دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں دو مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں صحافی پاکستانی انگریزی روزناموں ’پاکستان ٹو ڈے‘ اور ’دی نیوز‘ کے لیے کام کرتے تھے۔
پشاور کے مرکزی لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر عبدالحمید آفریدی نے بتایا کہ ان دھماکوں میں 39 افراد ہلاک ہوئے اور 108 زخمی، جن میں سے 47 ابھی تک اس ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ان بم دھماکوں میں سے ایک میں ٹائمر کے استعمال کیے جانے اور دوسرے کے مبینہ طور پر ایک خودکش حملہ ہونے کی وجہ سے حکام کا خیال ہے کہ یہ دونوں دھماکے طالبان عسکریت پسندوں نے کیے۔ لیکن پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے ان حملوں میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی واضح طور پر تردید کی ہے۔
اس ترجمان نے ایک نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان دھماکوں میں طالبان کا یقینی طور پر کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ طالبان کے اس ترجمان نے کہا، ’طالبان پاکستانی سکیورٹی دستوں، حکومت اور حکومت کا ساتھ دینے والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پشاور میں کیا جانے والا دہرا بم حملہ طالبان نے نہیں کیا۔‘
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک