پشاور: دہشت گردی میں کمی سے فوڈ انڈسٹری اور سیاحت میں ترقی
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے لیے 2015ء کے مقابلے میں 2016ء بہتر سال ثابت ہوا۔ گزشتہ برس پشاور میں دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی تو تجارتی مراکز، فوڈ انڈسٹری اور سیاحت کے شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آئی۔
پشاور میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری
پشاور گزشتہ قریب دو دہائیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے کافی متاثر ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ شہر ہر میدان میں پیچھے رہ گیا تھا۔ اب لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اب پشاور میں ملکی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی ادارے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
دہشت گردانہ حملوں میں واضح کمی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء میں ملک بھر میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے بہت کم واقعات پیش آئے، جس کی وجہ شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن ضرب عضب کو قرار دیا جا رہا ہے۔
حالات میں بہتری کا مثبت کاروباری نتیجہ
حالات بہتر ہوتے ہی اپنی خوش خوراکی اور مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور پشاور کے شہریوں کی دلچسپی کے پیش نظر مقامی مارکیٹوں میں ملکی اور بین الاقوامی فوڈ کمپنیوں نے اپنی فرنچائزڈ شاخیں کھول دیں۔
’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ بھی پشاور میں
ترکی کے مشہور ’ٹرکش ڈونر ہاؤس‘ کو دسمبر 2016ء میں پشاور میں متعارف کرانے والے احسان اللہ کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں ان کے فوڈ ہاؤس میں ہر روز لوگوں کا ہجوم لگا رہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شہر کے شدت پسندی سے متاثرہ عوام تفریح چاہتے ہیں۔
’چائے خانہ‘ میں ستّر اقسام کی چائے
اس تصویر میں اسد علی نامی شہری اپنے دوستوں کے ساتھ ’چائے خانہ‘ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول پشاور میں ’چائے خانہ‘ جیسی جگہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ صرف ایک ماہ تک پہلے صارفین ’ستّر اقسام کی چائے کے لیے مشہور‘ اس کیفے کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسلام آباد تک کا سفر کرتے تھے لیکن اب انہیں یہ سہولت پشاور ہی میں دستیاب ہے۔
کراچی کا فوڈ برانڈ تئیس ملکوں میں
’باربی کیو ٹونائٹ‘ کے نام سے مشہور کراچی کے اس فوڈ برانڈ کی پاکستان کےعلاوہ بھی بائیس ممالک میں شاخیں ہیں۔ کشیدہ حالات کی وجہ سے پشاور میں ’باربی کیو ٹونائٹ‘ کا آغاز کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ اس برانڈ کی پشاور فرنچائز کے مالک کے مطابق خیبر پختونخوا میں اشیائے خوراک اور ریستورانوں کے شعبوں میں محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
نئے ریستوراں ایک منافع بخش کاروبار
پشاور کے لوگوں عام طور پر دیسی کھانوں مثلاﹰ چپلی کباب اور مٹن کڑاہی کے دلدادہ تصور کیے جاتے ہیں تاہم مختلف فاسٹ فوڈ ریستورانوں پر لوگوں کے ہجوم اور آئے دن نئے مشہور ریستورانوں کا کھلنا اس امر کے اشارے ہیں کہ مقامی اور علاقائی طور پر فاسٹ فوڈ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
سولہ پاکستانی شہروں میں چوالیس میکڈونلڈز
امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کا دنیا بھر میں ایک بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت پاکستان کے سولہ بڑے شہروں میں اس ریستوران کی چوالیس فرنچائزڈ شاخیں قائم ہیں۔ میکڈونلڈز نے گزشتہ برس پشاور میں اپنے قدم جمائے اور بہت تھوڑے عرصے میں ریکارڈ کاروبار کیا۔ عوامی دلچسپی کے پیش نظر اس سال پشاور میں میکڈونلڈز کی ایک اور شاخ بھی کھولی جا رہی ہے۔
’نان سنس‘ جو کوئی ’نان سنس‘ نہیں
گوکہ ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ’نان سنس‘ پشاور کا ایک مقامی ریستوراں خیال کیا جاتا ہے تام دلکش بناوٹ اور مختلف فوڈ آئٹمز کے عجیب و غریب اور مزاحیہ نام لوگوں کو اس ریستوراں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ریستوراں میں آ کر مہمان کچھ دیر کے لیے اپنی ذہنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔
آسٹریلین ’کون ہیڈز‘ بھی اب پشاور میں
آسٹریلوی برانڈ ’کون ہیڈز‘ میں آئے ہوئے نعمان خان کہتے ہیں کہ کم ہی عرصے میں وہ پشاور میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ’’اب ہم پشاور میں رات گئے تک ملکی اور بین الاقوامی ریستورانوں میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے کھانے کھا سکتے ہیں۔ پہلے نہ تو حالات اچھے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس انتخاب کا امکان اتنا زیادہ تھا۔‘‘
آسٹریلوی کافی ہاؤس ’گلوریا جینز‘
گلوریا جینز کے نام سے مشہور آسٹریلین کافی شاپ کی خیبر پختونخوا آمد کے بارے میں اس کمپنی کی ایک فرنچائز کے مالک احسان اللہ کا کہنا ہےکہ پشاور کے لوگ عرصہ دراز سے گھروں میں محصور تھے اور ان کے لیے روایتی کھانوں سے ہٹ کر ایک نئے ذائقے کی ضرورت تھی، جو گلوریا جینز نے ان کو فراہم کیا۔ ’’لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ہم بھی ابھی تک یہاں ہیں۔‘‘
سرمایہ کاری کے لیے پرکشش معاہدے
پشاور میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عربی کے بقول صوبائی دارالحکومت میں بین الاقوامی فوڈ انڈسٹری کی طرف سے سرمایہ کاری اس خطے میں امن و امان کی بڑی نشانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اچھے معاہدوں اور سرمایہ کاری کے بہتر ماحول کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ اب پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔
’باب پشاور‘ جو اب ’سیلفی برج‘ بن چکا ہے
سال 2016ء میں انتہائی تیز رفتاری سے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل کیے گئے اس کثیر المنزلہ پل کو ’باب پشاور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کشیدہ حالات کے ستائے خیبر پختونخوا کے عوام اس پل کو بھی کسی تفریحی مقام سے کم نہیں سمجھتے۔ دن رات وہاں لوگوں کے رش اور تصاویر بنانے کے شوق کی وجہ سے اس پل کو مقامی لوگ ’سیلفی برِج‘ کہنے لگے ہیں۔
پشاور میں صفائی کا سال
ماضی میں پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کو ایک بار پھر پھولوں کا شہر بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے سال 2017ء کو صفائی کا سال قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح پشاور کو گندگی سے بھی پاک کر دینے کے لیے ’گلونہ پیخور‘ کے نام سے شہر کی صفائی کی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں شہری بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں۔