پشاور: سرطان کے مریضوں کے لیے امید کی کرن
10 مارچ 2014ترقی پذیر ممالک میں سرطان یا کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئندہ دس سالوں میں ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ان کیسز کی تعداد 75 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ورلڈ ہیلتھ ارگنایزیشن( WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر تشخیص اور علاج کے لیے مناسب تدابیر مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ کینسر کیوں ہوتا ہے، اس کا حقیقی جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں ہے لیکن ماہرینِ صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ جینزمیں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔ پاکستان میں کینسرکے مرض سے جاں بحق ہونے والوں کی سالانہ تعداد ایک لاکھ 5 ہزار سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔
صوبہ خیبرپختون خواہ میں حکومت نے حال ہی میں پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں کینسر مرض میں مبتلا مریضوں کے مفت علاج کرنے کا اعلان کیا ہے، اس منصوبے کے لئے حکومت نے ستمبر 2012 ء میں فنڈ مختص کیا تھا لیکن کچھ وجوہات کے بنا پر اس پروگرام پر کام تاخیر کا شکار ہوگیا تھا اور اب حکومت اس پر جلد عملدرآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کے تخت صوبے بھر کے لوگوں کو علاج کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی مہیا کی جائیں گی۔
حیات آباد میڈیکل کمپلکس ہسپتال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر بشریٰ کا اس منصوبے کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے، اور اس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا، کیونکہ کینسر کی بیماری بہت بڑھ رہی ہے اور اس میں مبتلا زیادہ تر لوگ غریب ہیں جو اس کے علاج کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر بشریٰ کامزید کہنا ہے،'' اب کینسر کے مرض میں مبتلا مریض ایک لاکھ بیس ہزار روپے ماہانہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں، ان لوگوں کے لئے یہ بہت مشکل ہے جو مہینے میں پانچ سے دس ہزار روپے کماتے ہیں، یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے تو وہ لوگ کیسے اتنا خرچہ کرسکتے ہیں، وہ تو سب کچھ بیچ کر بھی یہ نہیں کرسکتے۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ سرطان یا کینسر کے مریضوں کا علاج آسان ہے لیکن اس کی ادویات بہت مہنگی ہیں اور عام طور پر یہاں دستیاب بھی نہیں ہوتی، جس کے لئے لوگ لاہور یا کراچی تک کا سفر کرکے شوکت خانم میموریل ہسپتال یا آغا خان ہسپتال جاتے ہیں۔ گوکہ شوکت خانم ہسپتال میں مریضوں کا فری علاج کیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی اکثر لوگوں کے پاس وہاں تک جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا، اور پھر کچھ دنوں تک انجان اور مہنگے شہر میں قیام اور کھانا پینا بہت مشکل ہوجاتا ہے، اس لئے اگرحکومت یہاں پر یہ سہولت شروع کرے تو یہ بہت اچھا ہوگا اور لوگ بہت بڑی تکلیف سے بچ جائیں گے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں رجسٹریشن انچارج آف بلڈ کینسر عبدالواحد نے ڈی ڈبلیو کو اس منصوبے کی تاخیر کے بارے میں بتایا۔'' اس منصوبے پر عمل بہت پہلے شروع ہوجانا تھا ، لیکن اس میں کچھ آفیشل مسئلے آگئے تھے، کسی کمپنی والے نے کچھ کہا تھا اور حکومت کی طرف سے بھی کچھ مسائل تھے ،لیکن اب امید کی جارہی ہے کہ یہ پروگرام مارچ کے آخر یا اپریل میں یہ باقاعدہ طور پر فعال ہوجائیگا۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ مفت علاج کی یہ سہولت صرف خیبر پختون خواہ کے عوام کے لیے ہے۔ کینسر کی بہت سی مختلف اقسام ہیں اور اس کی تشخیص جتنی جلدی ہواتنا ہی اس کا علاج آسان ہوتا ہے اور مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عابد جمیل کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام بہت جلد شروع ہوجانے کی امید ہے اور اس مد میں تمام تر تیاریاں کی جا چکی ہیں اور اس منصوبے کے تحت صوبے بھر سے ہر سال تقریباً چار ہزارافراد کو فائدہ پہنچے گا اور ہر قسم کے سرطان میں مبتلا مریضوں کو رجسٹر کیا جائے گا سوائے ان لوگوں کے جو کہ بیماری کے چوتھے مرحلے میں داخل ہوچکے ہوں، کیونکہ اس صورت میں ان کے علاج کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کو جلد شروع کرنے کے لئے مختلف ادویات سازی کی فرمز کو خطوط بھی بھیجے گئے ہیں تاکہ ادویات کی فراہمی کو یقینی بناکر اس پر جلد کام شروع کیا جائے۔۔
صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایک کینسر کے مریض کے علاج پرکم ازکم ایک لاکھ سے دو لاکھ تک خرچہ آتا ہے جبکہ اس پروگرام کے بعد ان مریضوں کا بالکل مفت علاج کیا جائے گا، اس سلسلے میں حکومت نے پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلکس اور انسٹیٹوٹ آف ریڈیوتھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن (ارنم) دونوں ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے 150، 150ملین روپے مختص کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے۔
’’جو بلڈ کینسر کے مریض ہیں ان کا ہم ہر سال مفت علاج کریں گے،اور اس کے علاوہ ہم نے پشاور کے ارنم ہسپتال اور ایبٹ آباد میں نورہسپتال، ان کو ہم نے اسپیشل گرانٹ دیئے ہیں، تاکہ جو غریب لوگ ہیں، جولوگ اپنا علاج نہیں کرا سکتے ان کے لئے ہم ایک خلاء بنائے کہ وہ اپنا علاج کراسکیں۔‘‘
پختون خواہ کے عوام اب اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ان کے پیاروں کا مفت علاج شروع کیا جائیگا، اور علاج کے عرض طویل سفر کرنے سے ان کو چھٹکارا ملے گا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کو سرطان یا کینسر کی ایک بڑی لہر کا سامنا ہے۔ ادارے کی یہ بھی پیشنگوئی ہے کہ سال 2035 تک سرطان میں مبتلا افراد کی سالانہ تعداد دوکروڑ سے تجاوز کر جائے گی، تاہم ان میں نصف ایسے ہوں گے جن کے مرض کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ WHO کا کہنا ہے کہ سرطان سے بچاؤ کے لیے تمباکو نوشی، موٹاپے اور شراب نوشی پر قابو پانے پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔