پشاور: پولیس چوکی پر خودکش حملہ، پانچ ہلاک
28 اپریل 2010پشاورشہر کے پولیس سربراہ لیاقت علی خان نے میڈیا کو بتایا کہ ورسک روڈ پر پیر بالا کے مقام پر قائم پولیس چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے والی بارود سے بھری گاڑی قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے آرہی تھی۔ خان نے بتایا کہ بارود سے بھری اس گاڑی میں سوار افراد پشاور شہر میں داخل ہونا چاہتے تھے، لیکن جب پولیس چیک پوسٹ پر تعینات اہلکاروں نے انہیں روکا تو انہوں نے گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پشاور کے پولیس سربراہ نے مزید بتایا کہ جاں بحق ہونے والے تمام پولیس اہلکار ناکے پر موجود تھے۔
اس دھماکے سے پولیس چوکی مکمل طور پر تباہ ہوگئی جبکہ قریبی عمارات اور ایک مسجد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔
اس واقعے کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تلاشی اور تفتیش کا کام شروع کر دیا ہے۔ ’بم ڈسپوزل سکواڈ‘ کے مطابق اس حملے میں180کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ خود کش دھماکے کا شکار ہونے والی چیک پوسٹ پشاور کے مضافات میں واقع ہے، جہاں سے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کی حدود شروع ہوتی ہیں۔
واشنگٹن حکومت کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے ایک عرصے سے عسکریت پسندوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور سن 2001ء میں افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں کثیر تعداد میں طالبان نے وہاں سے فرار ہو کر پاکستان کے ان قبائلی علاقوں میں پناہ لے کر اپنے ٹھکانے بنا لئے تھے۔ اسلام آباد حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے سے قبائلی علاقوں میں سرگرم شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مختلف خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں ساڑھے تین ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں اگست 2008ء کے بعد سے اب تک ہونے والے تقریباً 100 ڈرون حملوں میں بھی 880 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: بخت زمان/خبر رساں ادارے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی