پناہ سے متعلق يورپی قوانين ميں اصلاحات ممکن
29 جون 2020اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنيا بھر ميں پناہ کی تلاش ميں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد اسی ملين سے زائد ہے، جو دنيا کی مجموعی آبادی کے ايک فيصد کے برابر بنتی ہے۔ يوں سمجھ ليجيے کہ جرمنی کی مجموعی آبادی کے آس پاس ہی۔ يہ سب ہی يورپ پہنچنے کے خواہاں نہيں بل کہ ہر کوئی اپنے خطے ميں پناہ کی تلاش ميں ہے۔ نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا نے ہجرت کی رفتار کم کر دی ہے۔ يہ يورپ کے ليے سياسی پناہ کے نظام ميں اصلاحات متعارف کرانے کا ايک موقع ہے۔
ڈبلن ريگوليشن کے مطابق مہاجرين يا پناہ گزينوں کا اندراج اور ان کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ان ہی ملکوں ميں ہونی چاہيے، جن ميں وہ سب سے پہلے اترے ہوں۔ جغرافيائی لحاظ سے يہ يونان اور اٹلی ہيں۔ سن 2015 اور سن 2016 ميں جب جنوبی ايشيا، مشرق وسطی اور شمالی افريقہ کے خطوں سے لاکھوں افراد نے يورپ کا رخ کيا، تو يہ نظام اور بالخصوص چند ممالک شديد دباؤ کا شکار ہو گئے تھے۔ چند روز قبل جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا، ''يورپ ميں پناہ کا موجودہ نظام اب زيادہ کارآمد نہيں رہا اور اس ميں بہتری کی گنجائش ہے۔ ہميں فوراً ايک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی ايک عرصے سے پناہ کے يورپی نظام ميں اصلاحات کا مطالبہ کرتا آيا ہے۔ ايسی کوششوں کا مقصد رکن ملکوں ميں مہاجرين و پناہ گزينوں کی منصفانہ تقسيم ہے۔ اس ضمن ميں يورپی کميشن نے سن 2016 ميں ايک اصلاحاتی پيکج پيش کيا تاہم چند رکن رياستوں نے اس کی سخت مخالفت کی، بالخصوص 'وائس گراڈ‘ نامی گروپ کے رکن ملکوں نے جن ميں پولينڈ، ہنگری، چيک جمہوريہ اور سلوواکيہ شامل تھے۔
جرمنی يورپی کميشن کی صدارت سنبھالنے کے بعد ايک نيا آغاز چاہتا ہے۔ جرمنی ميں مہاجرين کے ليے کام کرنے والے اداروں کا بھی حکومت پر زور ہے کہ صدارت کی مدت کو اس مقصد کے ليے استعمال کيا جائے۔ تاہم ان تنظيموں کو وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی اصلاحات ميں چند نکتے پسند نہيں۔ سب سے اہم يہ کہ زيہوفر دفاع پر زور ديتے ہيں۔ ان کا موقف ہے کہ بلاک کی بيرونی سرحدوں پر نگرانی بڑھائی جائے اور صرف ان کو موقع ديا جائے، جن کا يورپ ميں سياسی پناہ کا واقعی کوئی امکان ہے۔ زيہوفر کی تجاويز کے مطابق دوسروں کو فوری طور پر ملک بدر کر ديا جانا چاہيے اور تقسيم بھی صرف انہی کی ہونی چاہيے، جن کی درخواستيں منظور ہوں۔ انہوں نے پچھلے ہفتے ہی کہا ہے، ''ہم تحفظ کے مستحق لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حامی ہيں مگر قانون کی بالادستی کو بھی يقينی بنانا ہو گا۔ جن لوگوں کو تحفظ کی ضرورت نہيں، انہيں اپنے ممالک واپس جانا ہو گا۔‘‘
پرو ازيل نامی ايک ادارے سے وابستہ وابيکے يوڈتھ کا کہنا ہے کہ ظلم و تشدد سے فرار ہونے والوں کو يہ موقع فراہم ہونا چاہيے کہ وہ اپنی داستان بيان کر سکيں اور ان کی بات سنی جائے۔ اسی کے بعد اس نتيجے پر پہنچا جائے کہ آيا متعلقہ شخص کو پناہ درکار ہے۔ يوڈتھ کو البتہ جرمن وزير داخلہ کے منصوبے ميں انہيں اس کی گنجائش دکھائی نہيں ديتی۔
ع ص / ب ج، نيوز ايجنسياں