پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ابھی باقی، لیکن ملازمت مل گئی
7 اپریل 2016جرمنی میں صرف گزشتہ برس کے دوران گیارہ لاکھ نئے تارکین وطن نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں تھیں۔ جرمنی کی تیزی سے بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی کو سامنے رکھا جائے تو یہاں کام کرنے کے وافر مواقع موجود ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ انہیں ملازمت فراہم کر کے نہ صرف تارکین وطن کی بلکہ جرمنی کی ضروریات بھی پوری ہو پائیں گی لیکن اس سلسلے میں مشکلات درپیش ہیں۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
’پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانے پڑے گا‘
تاہم تئیس سالہ افغان شہری یار محمد ان پینتیس خوش قسمت تارکین وطن میں شامل ہے جنہیں باویرین انڈسٹری ایسوسی ایشن (وی بی ڈبلیو) کی جانب سے شروع کیے گئے منصوبے کے تحت ملازمت ملی ہے۔ وی بی ڈبلیو کے اس اپرنٹس شپ ماڈل پروجیکٹ میں ایک سو بیس تارکین وطن کے سماجی انضمام کے لیے انہیں ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
مہاجرین اور تارکین وطن کی مجموعی تعداد کو دیکھا جائے تو یہ منصوبہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے باوجود یہ تارکین وطن کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کر کے جرمن روزگار کی منڈی تک پہنچانے کی جانب ایک مثالی اقدام ہے۔
یار محمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’جرمنی میں اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اب مجھے نوکری مل گئی ہے اور مجھے یہ کام بھی بہت اچھا لگا ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ میری ملازمت برقرار رہے۔‘‘
ابھی تک اس نوجوان افغان تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا۔ اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ اپنے خاندان کو افغانستان ہی میں چھوڑ کر جرمنی آنے والا یار محمد مزید کتنے عرصے تک جرمنی میں قیام کر سکتا ہے۔
انیتا برونر نے اسے اپنی کمپنی میں ملازمت فراہم کی ہے اور وہ یار محمد کو پیچیدہ کاغذی کارروائی مکمل کرنے میں مدد بھی کرتی ہیں۔ برونر چاہتی ہیں کہ وہ ان کی کمپنی میں کام کرتا رہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری رائے میں مہاجرین کے سماجی انضام کے لیے انہیں ملازمت فراہم کرنے سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘‘
باویرین انڈسٹری ایسوسی ایشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر برٹرام بروسارڈ کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ میں 120 تارکین وطن کو شامل کیا جانا تھا لیکن 109 پناہ گزینوں نے شمولیت اختیار کی اور ان میں سے اب تیس فیصد تارکین وطن کو جرمنی میں روزگار مہیا ہے۔