پنجاب حکومت کو کورونا کے ’’مفرور‘‘ مشتبہ مریضوں کی تلاش
19 مارچ 2020ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب حکومت کی ترجمان اور کورونا کے انسداد کے لیے بنائی جانے والی صوبائی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی رکن مسرت جمشید چیمہ نے بتایا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومت اپنی طرف سے ہر ممکن حد تک کوششیں کر رہی ہے لیکن عوام کو اس بیماری کے مکمل تدارک کے لیے خود بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
مسرت چیمہ کے بقول ابھی ایران سے پانچ ہزار کے قریب زائرین آنا باقی ہیں اور ان کی اسکریننگ کے لیے ڈیرہ غازی خان، ملتان اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں قرنطینہ کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے کتنے افراد ایسے ہیں، جو بغیر اسکریننگ کرائے غائب ہو چکے ہیں، ''دراصل یہ امیر لوگ ہیں، جو قرنطینہ یا سرکاری ہسپتالوں میں نہیں آنا چاہتے اور نجی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروا کر چھپے بیٹھے ہیں، ہم نے پنجاب کے تمام بڑے نجی ہسپتالوں میں بھی ایسے مریضوں کے لیے ''آئسولیشن وارڈز‘‘ قائم کروا دیے ہیں، ان کا زیادہ دیر چھپا رہنا ان کے اہل خانہ اور ملازمین کی زندگیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مشتبہ مریض غریب خواتین، جو ہسپتالوں میں نہیں رہنا چاہتیں، ان کے لیے بھی ایس او پیز تیار کر رہے ہیں تاکہ اعتکاف کی طرز پر انہیں اپنے گھروں میں علیحدہ جگہ فراہم کی جا سکے اور وہ اطمینان سے اپنا علاج کروا سکیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومتی ادارے ٹریول ڈیٹا حاصل کر کے ایسے مسافروں تک پہنچنے کے لیے چھاپے بھی مار رہے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں ماہ مارچ کی دس تاریخ تک کورونا وائرس سے متاثرہ ملکوں سے آنے والے پانچ ہزار بیالیس مسافروں میں سے ایک ہزار اٹہتر مسافروں کی اسکریننگ نہیں ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان مسافروں کی تلاش کی گئی تو کچھ ملک یا اپنے ضلع سے باہر چلے گئے ہیں اور باقیوں کا کچھ پتہ نہیں چلایا جا سکا۔
اس رپورٹ کے مطابق دس مارچ تک ''مفرور‘‘ ہو جانے والے مسافروں میں سے دو سو چوہترکا تعلق لاہور سے، دو سو بتیس کا سیالکوٹ سے، ایک سو انہتر گوجرانوالہ سے اور ایک سو ساٹھ کا تعلق منڈی بہاوالدین سے ہے۔ گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے مشتبہ مریضوں کی تعداد میں اب اضافہ ہو چکا ہو گا۔ تفتان کے قرنطینہ سے لوگوں کے بغیر اسکریننگ کے نکلنے اور ہوائی اڈوں سے بھی لوگوں کے بچ نکلنے کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں لوگوں کو نکالنے کے حوالے وفاقی حکومت کے ایک وزیر کا نام بھی آتا رہا ہے۔
مسرت چیمہ، جو کہ پنجاب اسمبلی کی بھی رکن ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے ماسک اور سینیٹائزرکے علاوہ ادویات کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان مشتبہ مریضوں کے بارے میں ہماری بے بسی یہ ہے کہ ہم ان کو سزا بھی نہیں دے سکتے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مناسب علاج ہو جائے اور وہ معاشرے میں بیماری پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا، ''ہم نے ٹریول ڈیٹا لے لیا ہے، علاقے شارٹ لسٹ کر رہے ہیں، جہاں سے مریض ملے گا، اس پورے علاقے کی اسکریننگ کریں گے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ کرونا کے خلاف جنگ میں حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟ تو مسرت چیمہ کا کہنا تھا کہ انہیں عوام کی طرف سے اس طرح کی سپورٹ ابھی نہیں مل رہی ہے، جس طرح کا تعاون سوسائٹی کی طرف سے متاثرہ مغربی ملکوں کو مل رہا ہے، ''ہم لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے تعلیمی ادارے بند کرتے ہیں، وہ سیر کو نکل کھڑے ہوتے ہیں، ابھی بھی معاشرے کا ایک حصہ اس مئسلے کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس کا'' فن‘‘ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ ماہرین کی ہدایات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
یاد رہے کہ سندھ کے وزیراعلی کی طرف سے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا تھا کہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ زائرین کی ایران سے آمد کے باوجود وہاں کورونا کے مریض سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مسرت چیمہ کا کہنا تھا، '' حقائق کا چھپانا پنجاب حکومت کے مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ ڈیٹا چھپا رہے ہیں، اگر ہمارے پاس درست اعداد و شمار ہوں گے تو پھر ہی ہم اس بیماری کو درست اور موثر طریقے سے ختم کر سکیں گے۔‘‘