پنجاب میں نمبرداروں کو عسکریت پسندوں پر نگاہ رکھنے کی تربیت دینے کا منصوبہ
26 جولائی 2011تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بغیر سوچ بچار کے تیار کیا گیا ہے اور اس لئے اس سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
چند روز قبل پنجاب کے شہر ساہیوال میں پولیس عہدیداروں اور وکلاء نے ایک سو نمبرداروں کو ان کے نئے فرائض سے آگاہ کیا۔ تاہم بعد میں سوال جواب کے وقفے میں بعض افراد نے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا۔
پاکستان میں 2007ء میں حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل روایتی حریف بھارت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے انہیں کافی عرصے سے برداشت کیا جا رہا تھا۔
تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کرنے والے ساہیوال پولیس کے عہدیدار صاحبزادہ غوث احمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ نمبردار پولیس کی آنکھیں اور کان بن جائیں اور دہشت گردی کے خاتمے میں ہماری مدد کریں۔‘‘
تربیتی ورکشاپس کے دوران نمبرداروں کو ایک کتابچہ فراہم کیا جاتا ہے جس میں القاعدہ، طالبان، لشکر طیبہ اور سپاہ صحابہ سمیت 32 عسکریت پسند تنظیموں کے بارے میں معلومات درج ہوتی ہیں۔
پرانا نظام، نیا خطرہ
نمبرداری کے پرانے نظام کے تحت، حکومت کے لیے آبیانہ وصول کرنے اور پولیس کو جرائم پر قابو پانے میں مدد دینے کے لئے با اثر زمینداروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد اس نظام کو ختم کر دیا گیا اور نئی حکومت نے محصولات جمع کرنے کے لیے اپنے عہدیدار مقرر کیے اور پولیس کو مستحکم کیا۔
پنجاب میں نمبرداری نظام کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ ملک کے شمال مغرب میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے پشتون قبائلی عمائدین کو تقویت پہنچانے کی طرز پر کیا گیا ہے۔ تاہم عسکریت پسندوں نے اس کے جواب میں قبائلی عمائدین کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے جن میں اب تک سینکڑوں عمائدین اور ان کے لشکروں کے اراکین ہلاک ہو چکے ہیں۔
سلامتی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نمبرداروں کو خدشہ ہے کہ ان کا بھی وہی حال ہو سکتا ہے۔
عسکری امور کی ماہر اور سلامتی کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ آغا کا کہنا ہے، ’’نمبردار اس معاشرے کا حصہ ہیں، وہ کیسے یہ کام کر سکتے ہیں‘‘۔ سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ یہ منصوبہ نیم دلی سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں مخبری کرنے والے افراد کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے کیونکہ حکام کے پاس پہلے ہی یہ معلومات موجود ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: کشور مصطفٰی