پنجاب کا نوجوان ووٹر جس نے روایتی سیاست کو مسترد کر دیا
10 فروری 2024ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر رئیس بخش رسول کہتے ہیں، ”میاں صاحبان سادہ اکثریت کی توقع لگائے بیٹھے تھے اور ان کی اُمیدوں کا محور پنجاب تھا، مگر یہاں کے ووٹر نے نہ صرف انہیں بلکہ روایتی سیاست کو ہی بری طرح مسترد کر دیا۔"
اب تک کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 96 جبکہ پنجاب اسمبلی کی 117 نشستوں پر کامیاب ہو چکی ہے جبکہ پاکستان مسلم ن قومی اسمبلی کی 73 اور پنجاب اسمبلی کی 133 نشستوں پر جیت چکی ہے۔
عمران خان کو تین مختلف مقدمات میں سزا، بلے کے نشان اور لیول پلیئنگ فیلڈ سے محرومی کے باوجود آخر مسلم لیگ ن اپنے گڑھ پنجاب سے توقعات کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ اور پاکستان تحریک انصاف کی فتح کے پیچھے کون سے رجحانات کار فرماں تھے؟ ہم نے مختلف تجزیہ کاروں سے جاننے کی کوشش کی ہے۔
مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے پنجاب کے اضلاع اور بدلتے رجحانات
انتخابی امور کے ماہر احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اصل طاقت جی ٹی روڈ کے اضلاع اور وسطی پنجاب رہے ہیں جہاں مشکل وقتوں میں بھی نواز شریف کا جادو چلا مگر اس بار صورتحال مختلف رہی۔"
وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”2018 ء مسلم لیگ ن کے لیے مشکل وقت تھا اس کے باوجود یہ جماعت ضلع سرگودھا سے قومی اسمبلی کی پانچ میں سے چار نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اس بار یہ بمشکل ایک سیٹ نکال سکی۔ اسی طرح فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کی پانچ نشستیں تھیں لیکن ابھی دس میں سے ایک ہے۔ جبکہ فیصل آباد کی کل اکیس صوبائی نشستوں میں سے سترہ آزاد لے اڑے ہیں۔"
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں، ”جی ٹی روڈ مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا یہاں 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے 79 حلقوں میں سے 72 پر کامیابی سمیٹی تھی جبکہ اس بار یہاں سے تقریباً نصف سیٹیں آزاد یعنی پی ٹی آئی کے امیدوار جیتنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد غیر معروف چہرے ہیں۔ یہ غیر معمولی اور انقلاب ساز رجحان ہے۔"
معروف دانشور وجاہت مسعود کی رائے مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”پنجاب میں پی ٹی آئی کی کارکردگی غیر متوقع تو کہی جا سکتی ہے لیکن رجحان ساز نہیں۔ یہ وقتی ابال ہے جس کے پیچھے سیاسی تجزیہ یا سوچی سمجھی رائے شامل نہیں۔ یہ موم کی ناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جب اور جیسے چاہے اسے اپنے حق میں موڑ لے گی۔ کیا پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹر کا مسئلہ واقعی آئین کی بالادستی اور جمہوریت حقوق کی حفاظت ہے؟ افسوس ہمارے پاس اس سوال کا اُمید افزا جواب نہیں ہے۔"
احمد اعجاز کہتے ہیں، ”پنجاب میں رجحانات تبدیل ہوئے، نوجوان ووٹر نے روایتی سیاست کو مسترد کیا لیکن یہ نظریاتی سیاست کی واپسی یا معاشرے میں انقلاب جیسی صورتحال ہرگز نہیں۔ اگر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے نہ ہٹایا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ یہ عمران خان کو سزا، پی ڈی ایم کی حکومت اور مسلم لیگ ن کی ''کنفیوژڈ‘‘ سیاست کے خلاف ووٹر کا ردعمل ہے۔ کوئی سماجی انقلاب نہیں۔"
پنجاب کے نوجوان ووٹر نے روایتی سیاست کو مسترد کر دیا
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی نسیم زہرا کہتی ہیں، ”پنجاب کے ووٹر نے مسلم لیگ ن اور دھڑے برادری کی روایتی سیاست کو کلین بولڈ کر دیا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ عمران خان کے نام پر لوگوں نے کھمبوں کو ووٹ دے کر جتوایا۔ یہ پولیٹیکل انجنئیرنگ کرنے والوں کے خلاف بھی عوام کا ردعمل ہے۔"
معروف صحافی سہیل وڑائچ ہمیں بتاتے ہیں، ”1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے پاکستان میں دھڑے، برادری اور جوڑ توڑ کی سیاست کی بنیاد رکھی، سب اُمیدوار آزاد تھے جنہوں نے ووٹ مانگنے کے لیے برادری ازم کا سہارا لیا، یہ پیٹرن بعد کی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہے۔ اس کی سب سے گہری بنیادیں پنجاب میں ہیں۔ اب لگتا ہے پی ٹی آئی نے اسے ہلا ڈالا ہے۔"
تجزیہ کار فریحہ ادریس ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کی وجہ ووٹر کا ری ایکشن ہے خاص طور پر نوجوان ووٹر کا، جس کو پی ٹی آئی نے مسلسل غیر روایتی اندازمیں انگیج رکھا، ایک بیانیہ بنایا اور اس کو مسلسل فیڈ کیا، بطور وزیراعظم عمران خان نے ٹک ٹاکرز سے ملاقاتیں کیں جس پر دیگر پارٹیوں نے مذاق اڑایا لیکن جب پی ٹی آئی پر مشکلات آئیں تو سوشل میڈیا نے اسے سیاست سے آؤٹ نہیں ہونے دیا، تحریک انصاف نے ٹک ٹاک پر ورچوئل جلسے جیسے غیر روایتی طریقے اپنائے جس کا انہیں پھل ملا۔" وہ کہتی ہیں، ”تحریک انصاف کے اُمیدواروں کی الیکشن مہم نہ ہونے کے برابر تھی، لیڈر جیل میں تھا، پہلی بار پنجاب میں کسی جماعت کی انتخابی مہم لیڈروں کے بجائے عوام چلاتے نظر آئے۔ ہم نے دیکھا کہ عوام نے اپنے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر ہر حلقے میں انتخابی مہم چلائی اور اپنے اُمیدوار کے نشان کو عام آدمی تک پہنچایا۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی کامیابی بے مثال ہے اور روایتی سیاست کے خلاف علم بغاوت ہے۔"
مبصرین کے نزدیک الیکٹیبلز سمجھے جانے والے مسلم لیگ ن کے نامور سیاست دانوں کی پنجاب میں شکست بھی بدلتے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔
روایتی طور پر لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں خواجہ سعد رفیق اور شیخ روحیل اصغر جیسے پرانے الیکٹیبلز شکست سے دوچار ہو گئے۔
اسی طرح این اے 115 شیخو پورہ سے آزاد اُمیدوار خرم شہزاد نے ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل جاوید لطیف محض 88 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ خرم شہزاد سیاست میں بالکل نووارد ہیں جنہوں نے 2022 ء کے ضمنی انتخابات کے دوران اس میدان میں قدم رکھا۔
اسی طرح گجرانوالہ سے لیگی رہنما خرم دستگير خان کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد مبین عارف نے تقریباً اٹھارہ ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔ جبکہ فیصل آباد سے رانا ثناءاللہ بھی اپنی سیٹ ہار چکے ہیں۔
پہلی بار الیکشن لڑنے والے امیدوار
نو مئی کے بعد پی ٹی آئی سے وابستہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا جس سے کئی نئے لوگوں کو جماعت میں سیاسی اسپیس ملی۔
2024 ء کے انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں پر تحریک انصاف نے تقریباً 444 ایسے اُمیدواروں کو ٹکٹ دیا جو پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہے تھے۔
پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے لیے تحریک انصاف نے 77 فیصد نئے اُمیدواروں کو ٹکٹ دیے جب کہ ٹکٹ حاصل کرنے والوں میں محض 33 پرانے یا سابق ممبران اسمبلی شامل تھے۔