پنجاب کی انتخابی صورت حال
30 اپریل 2013سب سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز رکھنے والے صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 2,367 امیدوار میدان میں اترے ہیں، آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کےعلاوہ جن نمایاں سیاسی جماعتوں کے امیدوار پنجاب میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان میں پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قاف کے علاوہ کئی دیگرسیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
بعض سروے اور رائے عامہ کے جائزوں میں پاکستان مسلم لیگ نون کو پنجاب میں دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں برتری دکھائی گئی ہے، لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے یہ صورت حال انتخاب کے روز تک تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایاز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون میں دائیں بازو کے ووٹ تقسیم ہونے سے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں فائدہ ہوگا، لیکن اب پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قاف پنجاب میں، خاص طور پر پنجاب کے شہری علاقوں میں اپنی مقبولیت بڑی حد تک کھو چکی ہیں، اب ان کا انحصار صرف بااثر الیکٹیبلز پر ہے اور پنجاب کے زیادہ تر حلقوں میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔
دوسری طرف ایک اور تجزیہ نگار فارووق حمید کا بھی کہنا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 44 اور قاف لیگ کو 26 نشستیں ملی تھیں، اس سال ایسی کامیابی ان جماعتوں کو ملتی نظر نہیں آرہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور 342 نشستوں کے ایوان میں وزیر اعظم بننے کے لیے 172 نشستوں کی ضرورت ہے جبکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں ہیں۔
فاروق حمید کے بقول قومی اسمبلی کی ایسی کُل نشستوں کا جن پر انتخابات ہو رہے ہیں 50 فی صد سے بھی زیادہ پنجاب میں ہیں۔ یہاں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے لیے وفاق میں اتحادی حکومت بنانا نسبتا زیادہ آسان ہوگا، اس سلسلے میں سینٹرل پنجاب کی 68 نشستوں پر بھی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون میں سخت مقابلے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق لاہور میں قومی اسمبلی کی 13 نشستوں میں سے نون لیگ کو پچھلے انتخابات میں 11نشستیں ملی تھیں۔ لیکن اس سال اپنے آبائی شہر میں اس جماعت کو ایسے نتائج حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یاد رہے 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی 61 نشستیں ملی تھیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون، بار بار اقتدار میں رہنے والی ایک تجربہ کار جماعت ہے جبکہ تحریک انصاف تبدیلی کا جنون رکھنے والوں کی پارٹی ہے اس لیے پنجاب میں تجربے اور جنون میں مقابلہ ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب پنجاب سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ نون کے اقتدار میں آنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، دہشت گردی کے شکار ملک کے تین دیگر صوبوں میں بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے انتخابات کے التوا کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
تجزیہ نگار ایاز خان کے مطابق دنیا میں جنگی حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، اس لیے پاکستان میں جاری دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے باوجود انتخابات ہونے چاہیں، ان کے بقول دہشت گرد ایک حمکت عملی کے تحت سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں، سیاست دانوں کو انتخابات میں حصہ لے کر ان کی سازشوں کو ناکام بنا دینا چاہیے۔
کئی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کی وارداتوں کے نہ ہونے کی وجہ یہاں کی جماعتوں خصوصا مسلم لیگ نون، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی وغیرہ کا طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنا ہے۔ ان کے بقول تین بڑی جماعتوں کو انتخابی مہم کا موقع فراہم کیے بغیر ہونے والے انتخابات کے نتائج پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ایاز خان نے بتایا کہ پنجاب میں دہشت گردی کی وارداتوں کے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد پنجاب کی رائے عامہ کے خلاف ہونے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ یہ صورتحال ان کے لیے کسی بڑی کارروائی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ تین صوبوں میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے حوالے سے ان کانقطہ نظر یہ تھا کہ طالبان پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف رہے، کے پی کے میں انہیں اے این پی کی مزاحمت کا سامنا رہا، کراچی میں ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ مسائل تھے، یہی وجہ ہے کہ ان جگہوں پر ان کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
ان کے خیال میں پانچ سال تک برسر اقتدار رہنے والی تینوں مذکورہ جماعتیں پانچ سال تک تمام اختیارات رکھنے کے باوجود وہ اس دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں، جس کا گلہ وہ آج کر رہی ہیں، اپنی ناکامی کو تسلیم کرنی کی بجائے اگر وہ انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کریں گی تو یہ مناسب نہیں ہو گا اور انتخابات کے التوا سے ملک میں انتشار بڑھے گا اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: افسر اعوان