1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کی يونيورسٹيوں ميں قرآنی تعليم، ليکن ترجمہ کون سا؟

17 جون 2020

پاکستان میں سماجی اور تعلیمی امور کے ماہرین سمیت کئی حلقے گورنر پنجاب کے اس حکم پر تنقید کر رہے ہیں، جس ميں انہوں نے صوبے میں جامعات کے طلبہ کے ليے قرآنی ترجمے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ترجمہ کون سا؟

https://p.dw.com/p/3duPN
Pakistan Studenten Klausur  University of Engineering and Technology
تصویر: picture-alliance/Pacific Press

حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق جامعات کے طلبا و طالبات کے ليے اردو ترجمے کے ساتھ قرآن کے مطالعے کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور جو طلبہ و طالبات ایسا نہیں کریں گے، انہیں ڈگریاں جاری نہیں کی جائیں گی۔

سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک میں فرقہ واریت کو مزيد تقويت مل سکتی ہے اور مذہبی طبقات کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو گا۔ معروف پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اس ضمن ميں اولين مسئلہ تو یہ ہے کہ ترجمہ پڑھایا کون سا جائے گا؟

وہ کہتے ہیں، ''قرآن کا بہت آسان ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد نےکیا تھا لیکن پاکستان میں مختلف مذہبی مکاتب فکر موجود ہیں۔ ان کے علماء میں سے اس ترجمے پر کوئی متفق نہیں ہو گا۔ پھر مختلف مکاتب فکر کے لوگ مختلف تراجم و تفاسیر پڑھتے ہیں۔ يہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ تراجم پڑھائے گا کون؟ ان کو پڑھانے کے ليے ہر فرقے کے علماء کہیں گے کہ معلم ان کے فرقے کا ہونا چاہیے۔ اس طرح جامعات میں مختلف مذہبی شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ یوں ہم دراصل یونیورسٹیوں کو بھی مذہبی مدرسے بنا دیں گے اور پھر ایسی مذہبی شخصیات سماجی علوم پر بھی فتوے دینے لگیں گی۔‘‘

ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور ریاست کو مذہبی امور سے دور رہنا چاہیے، کیونکہ یہ تو ہر فرد کا انفرادی معاملہ ہے، ''اگر حکومت تعلیم کو واقعی بہتر بنانا چاہتی ہے تو دوکروڑ سے زائد بچے جو بنيادی تعليم کی سہولت سے محروم ہيں، انہیں تعلیم سے آراستہ کرے۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی ميسر نہیں، دیواریں اور چھتیں کسی وقت بھی گر سکتی ہیں، جس سے بچوں کی ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کو ان مسائل پر توجہ دينا چاہيے اور تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کے کم از کم بھی پانچ فیصد کے برابر ہونا چاہیے۔‘‘

کئی پاکستانی حلقوں کا يہ بھی کہنا ہےکہ حکومت پنجاب کے علم میں ہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے ترجمے اور تفسیر کے نام پر پاکستانی علماء کے مابین کتنے اختلافات پائے جاتے ہیں اور اس حکومتی اقدام سے ان اختلافات میں مزید شدت آئے گی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دانشور ایوب ملک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا مودودی نے قرآن کا ترجمہ کیا، جسے تفہیم قران کہا جاتا ہے۔ بریلوی علماء کو اس ترجمے پر بھی اعتراض ہے، جو دیو بندی عالم اشرف تھانوی نے کیا تھا اور جس کی تفسیر مفتی شفیع نے معارف القران کے نام سے کی تھی۔‘‘

دیو بندی علماء کو بریلوی عالم احمد رضا خان کے کنزالایمان نامی ترجمے پر بھی تحفظات ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع اور اہل حدیث کے مسلم مذہبی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی مختلف تراجم کے حوالے سے آراء مختلف ہیں۔ ہم پہلے ہی دو طرح کی اسلامیات پڑھ رہے ہیں، جس سے ملک میں فرقہ واریت بڑھی ہے۔ اس فیصلے سے بھی بڑھے گی۔ ہمیں قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

چند مبصرین کے خیال میں پی ٹی آئی حکومت کی یہ پالیسی جنرل ضیاالحق کی 'اسلامائزیشن کی پالیسی‘ کا تسلسل ہے، جس سے ملک کو نقصان ہو گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف فاروق طارق کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سماجی اور تعلیمی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا، ''جو طلبہ مذہب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، وہ اسلامیات پڑھیں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔ لیکن فزکس، ریاضی، سائنس یا سوشل سائنسز کے طلبہ کو یہ پڑھانے کی منطق کیا ہے؟ یہ صرف ضیاالحق کی پالیسی کا تسلسل ہے، جسے کو مختلف مذہبی حلقے استعمال کریں گے۔‘‘

پاکستان میں کچھ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ترجمے کے ساتھ ساتھ بحث بھی ہو اور علمی گفتگو کی جائے، تو اس سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ لاہور کی ایف سی کالج یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر عمار علی جان نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ہی ایسے اساتذہ کو نکالا جا رہا ہے، جو علمی گفتگو کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دلائل کے ذریعے موجودہ معاشرتی مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔ تو اس فیصلے سے یہ نہیں لگتا کہ اس کا مقصد مذہبی حوالے سے بھی علمی اور تحقیقی گفتگو کا فروغ ہے۔‘‘

جامعہ عثمانیہ کا منفرد ’قرآن باغ‘

ع س خ (ع س / م م)