پنجاب کے کسان پریشان کیوں ہیں؟
4 مئی 2024پاکستانی صوبہ پنجاب کے کسانوں کو حکومت سے گندم کا سرکاری ریٹ کم مقرر کرنے اور صوبے میں سرکاری سطح پر گندم نہ خریدے جان کا شکوہ ہے۔
روایتی طور پر ہر سال گندم کی کٹائی شروع ہونے سے پہلے صوبائی حکومتیں فی من کے حساب سے گندم کے نرخ اور فصل کی خریداری کے اہداف مقرر کرتی ہیں تا کہ فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ کسانوں سے کتنی گندم خریدیں گی۔ جیسے ہی کٹائی شروع ہوتی ہے، ضلعی سطح پر بار دانہ کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور یوں سرکاری نرخ پر گندم کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔
’کچھ نہیں ہوتا‘ یا ’کچھ بھی ہو سکتا ہے‘
'ہم 50 سال پیچھے چلے گئے‘، سیلاب اور سندھ کے کسان
اس بار تاہم اپریل کے اوائل میں گندم کے نرخ اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے گندم کی خریداری سے متعلق پاکستانی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تاہم اس میٹنگ میں پنجاب سے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی اور یوں یہ معاملہ پنجاب حکومت پر چھوڑ دیا گیا۔ پنجاب حکومت نے اب گندم کی کم از کم قیمت انتالیس سو روپے مقرر کی ہے، تاہم حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدے جانے پر کسان آڑتیوں کے ہاتھوں اپنی فصل سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے حال ہی میں روٹی اور نان کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئےنئے نرخ مقرر کیے جن کے مطابق صوبے میں روٹی سولہ جبکہ نان بیس روپے کا ہو گا۔
فلور ملز ایسوسی ایشن اور نان بائی ایسوسی ایشن کے علاوہ پبلک سیکٹر کی طرف سے بھی یہ فیصلہ تنقید کی زد میں ہے۔
اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پالیسی ایڈوائزر اور ماہر زراعت ڈاکٹر فرح سلطانہ نے کہا، ”پہلے دو روپے روٹی سکیم متعارف کروائی گئی جو ناکام ہوئی اور اربوں روپے ضائع ہوئے۔ ہماری حکومتیں آٹے اور گندم کے حوالے سے مستحکم پالیساں بنانے سے قاصر ہیں۔ ہمیشہ سطحی اور وقتی اپروچ اپنائی گئی ہے۔ آج تک کھاد مافیا کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔“
وہ کہتی ہیں انہوں نے ”گزشتہ تین حکومتوں کے ساتھ کام کر کہ دیکھا ہے اور کاشتکاروں کے حوالے سے کسی کو طویل مدتی پالیسی میں دلچسپی نہیں۔“
علاوہ ازیں، امریکی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، ورلڈ بینک اور پاکستان کے مقامی اداروں نے مشترکہ طور پر ’پاکستان: ریویو آف دا ویٹ سیکٹر اینڈ گرین سٹوریج ایشوز‘ کے نام سے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں حکومتوں کی زرعی پالیسوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ”گندم کے حوالے سے سرکاری پالیسیوں کا جھکاؤ ملوں اور ٹریڈرز کی طرف ہے۔ کاشتکاروں کے لیے گندم ایکسپورٹ کرنا انتہائی مشکل جبکہ مل مالکان کے لیے آٹا ایکسپورٹ کرنا بہت آسان ہے۔ حکومت بینکوں سے قرضہ لے کر گندم خریدتی ہے، بینک بالعموم سولہ فیصد تک سالانہ منافع لیتے ہیں جو اربوں میں بنتا ہے۔“
ڈاکٹر فرح سلطانہ کہتی ہیں، ”زراعت اب زیادہ منافع بخش پیشہ نہیں رہا، بڑے زمینداروں نے آمدن کے نئے ذرائع دریافت کر لیے۔ اس لیے یہ سمجھنا خام خیالی ہے کہ وہ اسمبلیوں میں کسان دوست پالیساں بنوائیں گے۔ کسان گنا لگاتے ہیں شوگر مافیا کی چاندنی ہو جاتی ہے، کسان گندم اور چاول کاشت کرتے ہیں، مڈل مین اور فلور ملز اربوں کما لیتا ہے۔ اس زرعی ملک میں بے بس ترین طبقات میں سے ایک کاشتکار ہیں۔“