شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی جب اسے حمل ٹھہر گیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ پہلے مہینے سے ہی بچے کا نام سوچنے لگی اور پھر کئی مرتبہ شوہر سے کہتی کہ اس کی آنکھیں ایسی ہوں گی، چھوٹی سی ناک ہو گی اور ہاتھ پاؤں کس کے جیسے ہوں گے؟
وہ ایک ایک دن گن کر گزار رہی تھی۔ حمل کے دوران جب بہت تنگ آ جاتی تو یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی کہ جب اس کی گود بھر جائے گی تو وہ خود کو کتنا خوش قسمت محسوس کرے گی۔ بچے کی پیدائش کے بعد خوشی اور مسرت کی بجائے اسے عجیب فکر اور اداسی نے گھیر لیا اور وہ ہر وقت مضطرب رہنے لگی۔ بلا وجہ رونے لگتی اور کبھی کبھار تو اس کا جی چاہتا کہ وہ بچے کو اور خود کو کوئی نقصان پہنچا دے۔
گھر والے بھی اس کے اس رویے سے پریشان تھے۔ کسی نے کہا کہ کوئی آسیب یا سایہ ہے، کسی نے کہا نظر لگ گئی ہے اور اس کی ساس طرح طرح کے تعویذ اور پانی دم کر کر کے پلاتی مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔
زیادہ سوچنے اور پریشان کن خیالات سے بچاؤ کیسے ممکن؟
شوہر نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ علامات پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی ہیں۔ یہ بیماری ماں اور باپ دونوں کو ہو سکتی ہے مگر اکثر خواتین بچے کی پیدائش کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں اور افسردہ رہنے لگتی ہیں یا مزاج میں چڑ چڑا پن محسوس کرتی ہیں۔
یہ ایک بہت عام بیماری ہے، جس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ بچے کی پیدائش کے بعد ہارمونز کے اتار چڑھاؤ سے مزاج میں اس طرح کی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے کی پیدائش کے بعد آنے والی ذمہ داری کے لیے بعض دفعہ مائیں خود کو تیار محسوس نہیں کرتیں اور ایک عجیب احساس جرم میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ جیسے وہ اچھی مائیں نہیں ہیں یا نہیں بن سکتیں اور اسی طرح نئی ماں کو لوگوں کی طرف سے ملنے والے طرح طرح کے مشورے اور نصیحتیں بھی اسے مزید پریشانی میں مبتلا کرتی ہیں۔
بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اسے مزید تھکا دیتا ہے اور نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے طبیعت مزید بوجھل رہنے لگتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کا علاج دواؤں اور سائیکو تھراپی کے ذریعے با آسانی ممکن ہے۔
بیبی بلیوز اور پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں فرق
بچے کی پیدائش کے بعد ستر سے اسی فیصد خواتین کے مزاج میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، انہیں بیبی بلیوز کہتے ہیں مگر ایسا چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد طبعیت خود ہی ایک ہفتے کے اندر نارمل ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر یہ علامات ہفتوں یا مہینوں تک چلی جائیں تو یہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہلاتا ہے اور یہ علامات ایک سال تک ظاہر ہو سکتی ہیں۔ ان علامات میں شدید اضطراب اور اداسی، نیند کی کمی، بلاوجہ غصہ اور چڑ چڑاپن، بھوک نہ لگنا، بچے کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس نہ ہونا، خود کو یا بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات اور بہت زیادہ رونا وغیرہ شامل ہیں۔
پوسٹ پارٹم سائیکوسس
یہ بھی پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی طرح ایک ذہنی مرض ہے، جو بچے کی پیدائش کے بعد لاحق ہوتا ہے۔ اس میں ڈپریشن کے مقابلے میں علامات زیادہ شدید اور تشویشناک ہوتی ہیں اور ماں بچے کے متعلق عجیب قسم کے وسوسوں اور وہم کا شکار ہو جاتی ہے اور بحیثیت ماں اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتی ہے جبکہ شدید نفسیاتی دباؤ محسوس کرتی ہے۔
ایسے میں وہ بچے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اس کی شرح پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ 1000خواتین میں سے ایک خاتون اس بیماری کا شکار ہوتی ہے۔
پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ حمل کے دوران جسم میں ہارمونز جیسے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے اور زچگی کے بعد اس میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے موڈ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے خواتین تھکاوٹ، بے چینی، اداسی اور چڑچڑا پن محسوس کرتی ہیں لیکن اس کی وجوہات صرف جسمانی نہیں ہیں۔ سماجی وجوہات بھی اس بیماری کا موجب بن سکتی ہیں، جیسے کہ بچپن میں بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا نا انصافی یا پھر شوہر کی طرف سے توجہ نہ ملنا اور حمل کے دوران خیال نہ رکھنا یا سسرال والوں کا برا سلوک بھی اس بیماری کے پیدا ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔ یا پھر وہ خواتین، جن کو پہلے بھی ڈپریشن یا اینگزائٹی کا مسئلہ رہا ہو، ان میں بھی پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پوسٹ پارٹم ڈپریشن ماں اور بچے کی جان کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بعض اوقات ماں اپنی یا بچے کی جان لے سکتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اس سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو، کینیڈا کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ماؤں میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد سے زیادہ ہے۔
ہمارے ہاں ان مسائل کے بارے میں ڈاکٹر بھی نئی ماؤں کو آگاہ نہیں کرتے۔ اس لیے عوام کو اس بیماری کے متعلق معلومات نہیں ہوتیں اور خواتین بھی اس پر بات کرنے سے کتراتی ہیں تاکہ ان کے بارے میں عجیب خیالات کا اظہار نہ کیا جائے، جیسے کہ یہ کہا جائے کہ وہ بچے کی پیدائش پر خوش نہیں ہیں یا وہ نا شکری کر رہی ہیں یا پھر انھیں پاگل ہی نہ سمجھ لیا جائے۔
لہذا اس مسئلے پر بات کرنا اہم ہے اور اس کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
گھر والوں کو اس حوالے سے بچے کے ساتھ ساتھ ماں کا خیال رکھنے اور اس پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ماں کے ذہنی مسائل کا براہ راست اثر بچے کی جسمانی و ذہنی نشوونما پر ہوتا ہے اور اس لیے ماں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس مشکل وقت میں اسے اکیلا نہ چھوڑا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل پر بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جائے اور والدین بچے کی ذمہ داریوں کو مل جل کر نبھائیں تاکہ صرف ماں پر بچے کا بوجھ نہ ہو اور وہ اپنے لیے بھی کچھ وقت نکال سکے اور یہ نہ سوچے کہ بچے کے بعد اس کی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں ہوگی اور وہ خود کو، اپنے کام کو، اور اپنے دیگر مشاغل کو وقت نہیں دے سکے گی۔
ہمارے معاشرے میں اول تو نفسیاتی مسائل پر بات نہیں ہوتی اور اگر کوئی کسی ذہنی الجھن کا شکار ہو تو اس کی مدد کرنے کی بجائے اس کی مزید دل آزاری کی جاتی ہے کہ ہمت کرو! یہ کونسا بڑا مسئلہ ہے! ہم نے کیا بچے نہیں پیدا کیے؟ اور آج کل کی لڑکیاں تو فارمی مرغیاں ہیں، کوئی کام نہیں ہوتا ان سے۔ ہم تو بچے کی پیدائش کے اگلے دن ہی سے گھر کے کاموں میں جت جاتی تھیں۔
اس طرح کی دقیانوسی خیالات ان مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔