1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیس تفتیش، جب تک سر پہ نہ پڑے سمجھ نہیں آتی

8 اگست 2021

یہ تحریر لکھنے کا خیال کبھی نہ آتا اگر ایک سینئر صحافی کو نور مقدم کیس میں نہایت جذباتی انداز میں تقریر کرتے نہ سنتی۔ یاد رکھیں عدالتیں ملزم کو نہیں مجرم کو سزا دیتی ہیں اور ملزم سے مجرم بننے کا سفر خاصا طویل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3yhoH
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

مقدمے تو روز بنتے ہیں، تھانے والے درجنوں کے حساب سے ایسے معاملات سنبھالتے ہیں، جن میں ایک گھونسا مار دینے پہ بھی پولیس بلا لی گئی اور کہیں گھنٹوں قبل قتل ہو گیا مگر کسی نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ پولیس جلد پہنچے یا دیر سے انہیں بالاخر موقع واردات پہ جا کر تن جھونکنا ہی پڑتا ہے۔

فوج میں جانے کا اپنا ایک گلیمر ہے، ایسی کشش پولیس فورس میں بھرتی ہونے کے لیے نہیں۔ پولیس فورس کی قربانیوں کو صرف ِنظر کر کے ان کے بڑھے ہوئے پیٹ پر اوچھے مذاق، ان کی پیٹی پر طنز، کرپشن، رشوت، ماورائے عدالت قتل اور جبری اقبالی بیان ان کے مجموعی تاثر سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔

عوام پاکستان کی پولیس پر ایسے ہی عوامی تبصرے دے سکتے ہیں مگر مدعی، وکلاء، عدالتیں اور وہاں چلنے والے مقدمات اندر کی کہانی سناتے ہیں۔ سپریم کورٹ تک پہنچنے والے بہت سے کریمنل کیسز میں یہ ریمارکس سننے کو ملتے ہیں کہ پولیس کی کمزور تفتیش کی وجہ سے مجرم عدالتوں سے ریلیف لے لیتے ہیں۔

پولیس بھرتی کا ٹیسٹ پاس کیا، پولیس والے بن گئے، اسلحہ چلانا، سکیورٹی دینا، ناکے لگانا، تعاقب کرنا، مجرم گرفتار کرنا، پرچہ کاٹنا، تلاشی لینا، چھاپہ مارنا آ گیا، پٹرولنگ کر لی، تھانہ چلانے کے دفتری امور بھی سیکھ لیے لیکن کیا تفتیش بھی سیکھی کہ نہیں؟

پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ یہ کڑیاں کیسے جڑتی ہیں۔ جرم ہوتا ہے تو پولیس کے پاس اطلاع آتی ہے۔ پولیس از خود کارروائی کرتی ہے یا درخواست گزار ایف آئی آر  کٹوانے تھانے جاتا ہے۔ پولیس موقع واردات کا دورہ کرتی ہے، ضرورت ہو تو اپنی نگرانی میں لیتی ہے۔

پولیس ملزمان گرفتار کرتی ہے اورجرم کی نوعیت کے مطابق ملزمان کو سیشن جج یا مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرتی ہے۔ تفتیش کے لیے پولیس عدالت سے ملزم کا جسمانی ریمانڈ یعنی کسٹڈی حاصل کرتی ہے۔ پھر شروع ہوتی ہے تھانے میں ملزم سے تفتیش، سوال جواب۔ یہ مکمل ہو تو ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

تفتیش میں پولیس ملزم کی نشاندہی پر جرم میں استعمال سامان برآمد، شہادتیں اکھٹی کرتی ہے۔ عینی شاہدین کی نشاندہی ہوتی ہے، جرم میں مددگار افراد کی مزید گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ مجسٹریٹ کے سامنے بیانات قلمبند ہوتے ہیں اور یوں تفتیش مکمل کی جاتی ہے۔

ایک مکمل تفتیش کو چالان کی شکل میں ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ بعض مقدمات میں تو یہ چالان پیش کرنے میں ہی پولیس اچھا خاصا عرصہ گزار دیتی ہے۔ تفتیش کرنے والی اور چالان کو عدالت میں پیش کرنے والی ٹیم استغاثہ کہلاتی ہے۔ ٹرائل کورٹ میں ثبوتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، گواہان سے جرح ہوتی ہے۔ ملزم کا وکیل اسی مرحلے پر دفاعی حربے استعمال کرتا ہے اور استغاثہ کے کیس کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اب اگر استغاثہ کے بنائے گئے کیس میں جھول ہو، حقائق بے ربط ہوں، شہادتیں کمزور اور ثبوت ناقص ہوں تو ہوتا کچھ بھی نہیں۔ بس پورا مقدمہ دھڑام سے منہ کے بل زمیں بوس ہو جاتا ہے۔

اسلام آباد کے کورٹ رپورٹر خدا یار موہلہ دو عشروں سے عدالتی رپورٹنگ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی قانون میں ایم فل ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ استغاثہ کے ہاتھ میں کیا طاقت ہوتی ہے۔ خدا یار موہلہ نے بتایا، ''پراسیکیوشن کی کوتاہیوں کا فائدہ سیدھا ملزم کو ہوتا ہے۔ کمزور تفتیش کا نتیجہ عدالت کے سامنے کمزور کیس کی شکل میں آتا ہے۔‘‘

ٹرائل کورٹ نے ثبوتوں، گواہان اور بیانات کی روشنی میں فیصلہ دینا ہے۔ سو اگر استغاثہ ناکام یا کمزور پڑے تو ملزم کو سزا نہیں ملتی، گرفتار ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے یا ملزم سیدھا کیس سے ہی بری ہوجاتا ہے۔ اب چاہے وہ اصل مجرم ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن استغاثہ اور پولیس کی تفتیش ناکام کیوں ہوتی ہے؟ خدا یار موہلہ سے جب یہ سوال کیا تو انہوں نے بہت سے عدالتی مثالیں سامنے رکھیں پھر کہنے لگے، ''ایک وجہ تو سیدھی سی ہے کہ پولیس جب جدید اور سائنسی طریقوں کے بجائے روایتی تفتیشی حربوں پہ اکتفا کرتی ہے تو نقائص کا مارجن رہتا ہے۔ پھر اہم یہ بھی ہے کہ صرف تفتیشی ٹیم کا پروفیشنل ہونا کافی نہیں، مقدمے سے جڑے ہر اہلکار کو ثبوت، گواہ، جائے وقوعہ، برآمدگی، شہادت ان سب نزاکتوں کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ کوئی اہم پہلو ضائع نہ ہو۔‘‘

اور دوسری وجہ وہ وہی ہے، جو مشہور زمانہ ڈینئل پرل کیس میں ہمیں نظر آئی۔ یعنی پولیس کی ہر مرحلے پہ نقائص سے بھرپور تفتیش، وجہ یا بلا وجہ ثبوتوں کو ضائع کرنا۔ کیس کے حقائق اور بیانات میں واضح تضاد، ایسی اسٹوری، جس میں جھول ہی جھول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے ڈینئل پرل کیس کی کمزور تفتیش ہر سماعت پہ موضوع بحث رہی۔

سنگین جرائم کے مقدمات میں پولیس انسان کے کئی روپ دیکھتی ہے، جھوٹے، سچے، ظالم و مظلوم، قاتل اور جنونی۔ لیکن ایسے مقدمات میں مدعی، وکلاء، عدالتیں اور متاثرہ افراد پولیس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا انحصار ان کے کنڈکٹ کے ساتھ ساتھ کارکردگی پہ بھی ہوتا ہے۔

پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیز میں کریمنالوجی بطور مضمون پڑھائی جا رہی ہے۔ پولیس فورس عالمی معیار کی بہتر تفتیش کے لیے ان علمی اداروں کی تحقیق سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، عرق ریزی سے کیے گئے تحقیقی مقالے لائبریری کی الماریوں میں پڑے رہنے کے لیے نہیں لکھے جاتے۔

ساری ذمہ داری صرف پولیس کی نہیں، یا بنیادی قانون کی الف ب سمجھنا صرف وکیل کا کام نہیں۔ ہماری بھولی عوام کو بھی چاہیے کہ بڑھتے جرائم کے پیش نظر خود بھی اپنے آئینی حقوق، فرائض، قانون، تھانہ، کچہری اور  عدالت وغیرہ کے حوالے سے بنیادی آگاہی حاصل کریں۔ ویسے تو جب تک سر پہ نہ پڑے سمجھ نہیں آتی مگر باخبر اور باشعور شہری ہی محفوظ معاشرہ بنا سکتے ہیں۔