پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کی ہلاکت، امریکا میں مظاہرے جاری
9 جولائی 2016جن شہروں میں بڑے مظاہرے ہوئے ان میں نیویارک سٹی، اٹلانٹا اور فلاڈیلفیا خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ سان فرانسسکو، اٹلانٹا اور فینیکس شہروں میں احتجاجی تقاریب میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔ ان تمام مقامات پر کشیدگی اور غم وغصے کے باوجود کوئی بڑا ناپسندیدہ واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ہر جگہ پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق فینیکس میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاعات ہیں جب کہ اٹلانٹا میں بھی دس افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ فینیکس میں پولیس نے فساد پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں پر مرچوں کا اسپرے بھی کیا۔
امریکی ریاست جورجیا کے شہر اٹلانٹا میں سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اٹلانٹا کے مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اٹلانٹا شہر کے میئر کیسم ریڈ کے مطابق یہ بڑا مظاہرہ پرامن رہا لیکن دس افراد کو امن خراب کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ مظاہرین ’ نو جسٹس، نو پیس، نو ریسِسٹ پولیس‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
مظاہروں کا سلسلہ جمعرات سے شروع ہوا تھا جب امریکی ریاست مینیسوٹا کے دارالحکومت سینٹ پال اور ایک اور ریاست لُوئزیانا کے شہر بیٹن رُوژ میں دو سیاہ فاموں کو سفید فام پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ سینٹ پال میں فیلینڈو کاسٹل کی ہلاکت کی ویڈیو اُس کی گرل فرینڈ نے انٹرنیٹ پر جاری کی تھی۔ بیٹن روژ میں ہلاک ہونے والے کا نام ایلٹن اسٹرلنگ تھا اور اُسے گزشتہ منگل کو ہلاک کیا گیا تھا۔
دو سیاہ فام شہریوں کی حالیہ ہلاکت کے واقعات کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو دو سال قبل ایسی ہی ایک واردات کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا تسلسل قرار دیا گیا ہے۔ سن 2014ء میں امریکی ریاست میسوری کے شہر فرگوسن میں ایک سیاہ فام مائیکل براؤن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کئی امریکی ریاستوں میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے سابق امریکی فوجی مائیکا جونسن نے اپنی اس واردات کی وجہ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی ہلاکت کو قرار دیا۔ مبصرین نے پولیس کی بے رحمانہ فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد مائیکا جونسن کی کارروائی کو افریقی امریکنوں میں پیدا ہونے والی بیزاری کا منطقی انجام قرار دیا ہے۔