پوٹن کا دوبارہ انتخاب، روس میں کون سی تبدیلیاں آ سکتی ہیں؟
19 مارچ 2024حالیہ صدارتی انتخابات کو دنیا بھر میں اور روس کے اندر بنیادی طور پر ایک رسمی کارروائی ہی سمجھا جا رہا تھا۔ بہت کم لوگ اس بات پر حیران تھے کہ صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک ''ریکارڈ فتح‘‘ حاصل کرتے ہوئے دوبارہ صدارتی عہدہ اپنے لیے محفوظ بنا لیا ہے۔ اب وہ ایک نئی مدت کے لیے بھی صدر ہوں گے تو ایسے میں ممکنہ طور پر روس کا مستقبل کیسا نظر آئے گا؟
ماہرین کے مطابق صدر پوٹن کئی وجوہات کی بنا پر اقتدار میں ہیں۔ ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مغربی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت کو مستحکم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، جو بھی یوکرینی جنگ کی مخالفت کرتا ہے، اسے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسے تمام محرکات کو یکجا کیا جائے، تو صدر پوٹن انہی کی بنیاد پر اپنی حکمرانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جنگی مشین کا پیٹ بھرنے کے لیے زیادہ ٹیکس
مشرقی یورپی امور کے ماہر ہانس ہینِنگ شروئڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روسی شہریوں کو ٹیکس میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ صدر پوٹن کے لیے یوکرین کے خلاف جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔
آسٹریا میں اِنسبروک یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گیرہارڈ مینگوٹ کے مطابق، ''حکومت کو مزید رقوم کی ضرورت ہے اور یہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ان اضافی ٹیکسوں کو یقیناً جنگ کی فنڈنگ کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا۔‘‘
مزید فوجی بھرتیاں؟
بہت سے روسی اب یہ سمجھتے ہیں کہ جلد ہی نئی فوجی بھرتیوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ جرمنی کی یونیورسٹی آف ہیمبرگ کے انسٹیٹیوٹ فار پیس ریسرچ اینڈ سکیورٹی پالیسی کی محققہ ریگینا ہیلر کے مطابق صدر پوٹن اپنی جنگی بیان بازی کو کم کرتے نظر نہیں آتے، ''ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یوکرین کے لیے مغربی حمایت اتنی مضبوط نہیں ہے، جتنی کہ ہونا چاہیے تھی۔ کریملن کے نقطہ نظر سے یہی بات اس کے فائدے میں ہے اور وہ نئی بھرتیوں اور فوجی نقل و حرکت کو بڑھاتے ہوئے یوکرین کی جنگ کا توازن اپنے حق میں کر سکتا ہے۔‘‘
تاہم نئی فوجی بھرتیوں کی مہم خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ ہیلر کے مطابق روسی شہری جنگ سے تھکاوٹ کا اظہار کر رہے ہیں۔ پروفیسر گیرہارڈ مینگوٹ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تناظر میں کسی بڑی مہم کے آغاز کے امکانات کم ہی ہیں۔
مشرقی یورپی امور کے ماہر ہانس ہینِنگ شروئڈر کے مطابق نئی فوجی بھرتیوں کا انحصار آئندہ مہینوں کے دوران یوکرین سے متعلق روسی عسکری منصوبوں پر ہو گا، ''اگر وہ جارحانہ انداز میں پیش قدمی کرتے ہوئے یوکرین کو شکست دینا چاہتے ہیں، تو انہیں جیتنے اور اس ملک کو کنٹرول میں لانے کے لیے اپنی مسلح افواج کی استعداد کو بڑھانا ہو گا۔‘‘
تاہم شروئڈر مزید کہتے ہیں کہ روس شاید صرف کامیاب نظر آنے کی کوشش کر رہا ہے، ''میرا تاثر یہ ہے کہ کم از کم امریکی [صدارتی] انتخابات تک، یہ بالادستی کو برقرار رکھنے اور اندرون اور بیرون ملک مجموعی طور پر یہ تاثر دینے کے بارے میں ہے کہ روسی فتح کی راہ پر گامزن ہیں۔‘‘
رواں سال ہونے والے امریکی انتخابات میں اگر صدر جو بائیڈن اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے ہار گئے تو یوکرین کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ شروئڈر کے مطابق اس صورت حال میں ممکنہ طور پر روس کو زیادہ بڑی عسکری نقل و حرکت اور فوجیوں کی اضافی بھرتیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
قیادت میں رد وبدل؟
ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ انتخابات کے بعد روسی قیادت میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ شروئڈر کہتے ہیں، ''مجھے اس وقت کوئی بڑی کمزوری نظر نہیں آ رہی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا صدر پوٹن ملکی وزیر اعظم سے بھی مطمئن ہیں جبکہ روس کے مرکزی بینک اور مالیاتی پالیسی سازوں نے یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکی پابندیوں کے بعد بھی غیر متوقع طور پر ملکی معیشت کو مستحکم بنایا ہے۔ شروئڈر کے مطابق مہنگائی بھی کنٹرول میں ہے جبکہ روس کی یورپ سے ہٹ کر اور ایشیا کی طرف اقتصادی تبدیلی نے بھی اچھا کام کیا ہے۔
صدر پوٹن نے قوم سے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس کو ایک نئی جنگ نواز اشرافیہ کی ضرورت ہے۔ محققہ ریگینا ہیلر کے مطابق صدر پوٹن اپنے اتحادیوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھرتی کر سکتے ہیں یا سامنے لا سکتے ہیں، جنہیں وہ طویل عرصے سے جانتے ہیں اور جو ان کے وفادار بھی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ حکمران طبقہ ممکنہ طور پر پوٹن کے بعد اقتدار کی ہموار اور مستحکم منتقلی کی تیاری کے طویل المدتی مقصد کے ساتھ تنظیم نو سے گزر سکتا ہے۔
یہ آرٹیکل پہلی بار روسی زبان میں شائع کیا گیا۔
ا ا / م م (میخائل بوشوئیف)