1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن کے اعلان جنگ کے بعد ایک نئی اور بڑی جنگ کا خطرہ، تبصرہ

24 فروری 2022

کریملن کی قیادت نے یوکرائن کی ریاستی خود مختاری کی عملی نفی کرتے ہوئے ڈونیٹسک اور لوہانسک میں روسی دستے بھیج دیے ہیں۔ اگر یورپ نے صدر پوٹن کے اس اقدام کا سدباب نہ کیا، تو ایک نئی اور بڑی جنگ سے بچنا مشکل تر ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/47PTF
مشرقی یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسند علاقو‌ں کو بطور ’آزاد عوامی جمہوریہ‘ تسلیم کرنے کے صدر پوٹن کے اعلان پر ڈونیٹسک میں خوشیاں منائی گئیںتصویر: Alexei Alexandrov/AP Photo/picture alliance

یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں ڈی ڈبلیو کے سابق نامہ نگار فرانک ہوفمان اس موضوع پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

سب کچھ بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ روسی فوجی دستوں نے رقبے کے لحاظ سے یورپ کی دوسری سب سے بڑی ریاست یوکرائن کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس طرح چھپ چھپا کر نہیں جیسا گزشتہ آٹھ برسوں میں کیا جاتا رہا تھا، جب کریمیا میں نامعلوم 'سبز آدمی‘ نظر آتے تھے۔ اب صدر پوٹن نے باضابطہ طور پر اور ایک قابض عسکری طاقت کی حیثیت سے روسی فوجی دستوں کو ایک ایسے آزاد اور خود مختار یورپی ملک میں بھیج دیا ہے، جو اقوام متحدہ کا رکن بھی ہے۔

کریملن کا یہ اقدام بھی ماضی میں ایسے کئی دیگر اقدامات کی طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ یورپی سلامتی اور تعاون کی کانفرنس کے 1994ء میں اتفاق کردہ بوڈاپیسٹ میمورنڈم کے بھی منافی ہے، جس کے نتیجے میں یوکرائن نے رضاکارانہ طور پر اپنے جوہری ہتھیار ترک کر دیے تھے۔ تب یوکرائن کے اس فیصلے کے جواب میں میمورنڈم کے دستخط کنندہ ممالک روس، برطانیہ اور امریکا نے خود کو پابند بنایا تھا کہ وہ یوکرائن کی قومی سرحدوں اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔

یہ کہ روس کی یوکرائن میں فوجی مداخلت بوڈاپیسٹ میمورنڈم کی خلاف ورزی ہے، اس حقیقت کو نیند سے جگا دینے والا الارم سمجھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر جرمنی میں کافی حد تک پائے جانے والے اس تاثر کے حوالے سے کہ نہیں، ولادیمیر پوٹن کا مطلب شاید یہ تو نہیں۔ لیکن روسی صدر کا مطلب بھی یہی تھا اور مقصد بھی۔ کمیونسٹ نظام حکومت والی سابقہ مشرقی جرمن ریاست میں شہری حقوق کے لیے سرگرم رہنے والے کارکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے کسی اقدام کا مطلب کیا ہوتا ہے: اعلان جنگ۔

صرف ایک ہمسایہ ملک ہی نہیں

پیر اکیس فروری کی شام صدر پوٹن نے اپنے ایک بیان میں دونوں ہاتھ میز پر رکھے بڑی سنجیدگی سے روسی قوم اور یورپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''یوکرائن صرف ایک ہمسایہ ملک ہی نہیں ہے۔ وہ ہماری تاریخ و ثقافت اور ہمارے فکری اور روحانی تسلسل کا ناقابل تنسیخ حصہ بھی ہے۔‘‘ روحانی تسلسل؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے پوٹن کی مراد تاریخ کا وہ حوالہ ہے، جسے کئی نام دیے جاتے ہیں۔ یہ نام ہیں: 'کییف کی سلطنت'، 'کییف والا روس‘ یا پھر ‘پرانا روس‘۔ آج کے قوم پسند روس میں 'کییف والے روس‘ کا یہی تاریخی حوالہ بہت اہم ہو چکا ہے، کیونکہ دیومالائی سطح پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ روس کی بنیاد تو کییف کی غاروں میں قائم لاورا نامی راہب خانے میں رکھی گئی تھی۔

Frank Hofmann DW
یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں ڈی ڈبلیو کے سابق نامہ نگار فرانک ہوفمان تصویر: DW

روسی صدر نے گزشتہ شام ٹی وی پر جو خطاب کیا، اس دوران ان کے چہرے سے نقاب پوری طرح اتر گیا۔ ماضی میں ولادیمیر پوٹن نے جب ایک بار جرمن پارلیمانی ارکان کو بہت متاثر کیا تھا تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ نیا اور جدید روس کچھ نہ کچھ بن جائے گا۔ اب وہ امید ختم ہو چکی ہے۔ کریملن میں آج بھی وہی پوٹن دکھائی دیتے ہیں، جو وہ ہمیشہ سے تھے: سابق سوویت یونین کی اولین خفیہ پولیس چیکا کی سوچ کے حامی اور سوویت دور کی سیکرٹ سروس کے جی بی کی پیداوار۔ عنقریب 70 برس کے ہو جانے والے ولادیمیر پوٹن کو اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں کہ سیاست اور ثقافت کی معاشرے میں عکاسی کے عمل کا یورپی فہم کس کو کہتے ہیں۔

پوٹن کا جرم روکا جانا چاہیے

یوکرائن 2004ء کے نارنجی انقلاب کے بعد سے اپنے لیے ایک راستہ طے کر چکا ہے۔ اس دوران اسے کئی دھچکے بھی لگے۔ 2013ء میں کییف کے میدان نامی علاقے سے اس لیے عوامی مظاہرے شروع ہو گئے تھے کہ تب روس نواز ملکی صدر یانوکووچ  نے یورپی یونین کے ساتھ اشتراک کے ایک مجوزہ معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔

یورپ کے پاس اب موقع ہے کہ وہ صدر پوٹن کو یوکرائن کے حوالے سے ان کے جرم سے روکے۔ دوسری صورت میں ایک ایسی نئی اور بڑی جنگ سے بچنا مشکل تر ہو جائے گا، جس کا شریک ذمے دار پھر یورپ کو بھی سمجھا جائے گا۔ ہر وہ حل، جس کے ذریعے اب یوکرائنی باغیوں کے زیر اثر علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک پر فوجی قبضے کے بعد پوٹن کے لیے آئندہ یوکرائن کے دیگر حصوں پر کنٹرول کی راہ بھی ہموار ہو جائے، وہ اپنے اندر یوکرائن کے خلاف حقیقی جنگ کا بیج لیے ہوئے ہو گا۔ اس لیے ایسا کوئی بھی حل اس مسئلے کا کوئی حل تو ہو گا ہی نہیں۔

روسی صدر پوٹن کو روکنے کے سلسلے میں آج کی وفاقی جمہوری جرمن ریاست پر یورپی یونین کے ایک انتہائی اہم رکن ملک کے طور پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ماضی میں وہ جرمن فوجی ہی تھے جنہوں نے اڈولف ہٹلر کے حکم پر پہلے پولینڈ اور پھر یوکرائن اور بیلاروس پر فوجی حملہ کیا تھا۔ تب ایسے حملے غلط تھے، تو اب پوٹن کی طرف سے یوکرائن میں روسی فوجی مداخلت کا سدباب بھی درست اور ناگزیر اقدام ہو گا۔

م م / ع ا (فرانک ہوفمان)