پوپ فرانسِس چلی کے دورے پر
15 جنوری 2018پوپ فرانسِس پیر پندرہ جنوری کو مقامی وقت کے مطابق قریب آٹھ بجے شام جنوبی امریکا کے اپنے چھٹے دورے پر سان تیاگو پہنچ رہے ہیں۔ پوپ کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کا چلی کا یہ پہلا دورہ ہے۔ پوپ فرانسِس خود بھی جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم 81 سالہ پوپ کے لیے چلی کے اس دورے کو خاصا مشکل قرار دیا جا رہا ہے۔ پوپ فرانسِس ساٹھ کی دہائی میں مسیحیت کے ایک طالب علم کے طور پر چلی میں وقت گزار چکے ہیں۔
مہاجرين کمزور ترين اور سب سے زيادہ ضرورت مند ہيں، پوپ فرانسس
یروشلم کے حالات پر فکر مند ہوں، پوپ فرانسس
پوپ نے بنگلہ دیش اور میانمار کا دورہ مکمل کر لیا
چلی میں سوشلسٹ خاتون صدر میشل باچیلیٹ کے اقتدار میں آنے سے قبل چلی ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے کا حامل ملک تھا، تاہم انہوں نے ملک میں متعدد بڑی اصلاحات کی ہیں، جن میں اسقاط حمل کو قانونی تحفظ دینا اور ہم جنس پرست جوڑوں کو حقوق دینا بھی شامل ہیں۔ وہ ہم جنس پرست جوڑوں کو شادی کا حق دینے تک کا قانونی بل بھی پارلیمان میں متعارف کروا چکی ہیں۔ دوسری جانب ملک میں ان تبدیلیوں کے اثرات کیتھولک کلیسا پر بھی پڑے ہیں۔ چلی میں کیتھولک مسیحیوں کی تعداد میں حالیہ کچھ عرصے میں تیزی سے کمی ہوئی ہے اور اب یہ تعداد 67 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جب کہ لادین افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب ان کی شرح 22 فیصد ہو چکی ہے۔ دوسری جانب ہمسایہ ملک پیرو کی آبادی کا 90 فیصد حصہ کیتھولک مسیحی آبادی پر مشتمل ہے۔
پوپ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقامی کیتھولک کلیسا کے قریب 80 ارکان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد پر ویٹیکن کی ایک کلیسائی عدالت میں جرم ثابت بھی ہو چکا ہے۔
چلی کے ایک بشپ نے جمعے کے روز اعتراف کیا تھا کہ پوپ فرانسِس کی جانب سے انہیں سن 2015ء میں تحریر کردہ ایک خط میں تین بشپس کو عہدوں سے ہٹانے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ تینوں افراد فرنانڈو کارادیما نامی اس معروف پادری سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں ویٹیکن نے سن 2011ء میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دے دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک طرف تو کیتھولک کلیسا ملک میں خاندان کی مضبوطی، اسقاط حمل کے رد اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو رد کرنے کی وجہ سے سماجی دباؤ کا شکار ہے اور دوسری جانب اسے سنجیدہ نوعیت کے داخلی مسائل بھی لاحق ہیں، جن میں متعدد پادریوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے الزامات بھی شامل ہیں۔