پيٹرول اور ڈيزل کی قيمتوں ميں اضافہ، عوام نالاں
30 جنوری 2023صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اکثريتی شہریوں کا کہنا تھا کہ حکومت عالمی قرض دہندگان کی شرائط آنکھیں بند کرکے ماننے سے گریز کرے اور سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالنے کی بجائے حکومتی اخراجات میں کمی لائے۔
پيٹرول کی قیمتوں میں حاليہ اضافے کی وجہ سے ملک میں سبزیوں، پھلوں اور کھانے پینے کے دیگر اشیاء سمیت روز مرہ زندگی کی بہت سی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انٹر سٹی بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کرائے بھی فوری طور پر بڑھا دیے گئے۔ اسما نورین نامی لاہور کی رہائشی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اب بچوں کو پڑھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسکول وین، رکشوں اور اوبر یا ان ڈرائیو والوں نے بھی اپنے کرائے بڑھا دیے ہیں۔‘‘ نورين کو خوف ہے کہ اسکولوں کی فیسیں بھی بڑھا دی جائیں گی۔ ''ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اگر پيٹرول کی قیمت کم بھی کر دی جائے، تو ان چیزوں کی قیمتیں تو واپس نہیں ہوں گی۔‘‘
پاکستانی عوام کے لیے پیناڈول کا فقدان ایک درد سر
خوراک کی قیمتیں کم کیسے کی جائیں؟
افراط زر اور مہنگائی کے باعث جرمن عوام کی پریشانی میں واضح اضافہ
عبدالجبار نامی ایک کاشت کار نے ڈوئچے ویلے اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیزل کی قیمتيں بڑھنے سے زرعی سیکٹر میں پیداواری لاگت سے پریشان کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایوان صنعت و تجارت کے متعدد ممبران نے بتایا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے ليے بھاری پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کو عالمی منڈی میں معاشی طور پر وائبل بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
ایک شہری طارق محمود نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ وہ اپنی گاڑی بیچ کر بہتر مائلیج والی چھوٹی گاڑی خریدنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ایک پيٹرول پمپ مالک شعيب نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اس اقدام کے اثرات تاجروں، صارفین اور معیشت سب پر منفی طور پر پڑیں گے۔ ''صرف پہلے ہی دن پيٹرول کی فروخت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف گاہک چڑچڑے ہو کر ہم پر غصہ نکال رہے ہیں۔‘‘
یاد رہے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک روز پہلے پيٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں پچاس روپے فی لیٹر کے اضافے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی مذاکراتی ٹیم قرض کے امور پر بات چیت کے ليے پاکستان پہنچنے والی ہے۔
اقتصادی تجزیہ کار فرخ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پيٹرول کی قیمتوں میں یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک سو تیئس ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اسی پچاسی ڈالر پر آ چکی ہیں۔ ان کے مطابق تیل چونکہ امپورٹ ہوتا ہے، اس لیے روپے کی قیمت میں شدید کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے پيٹرول کی قيمت میں اضافہ کیا گیا۔ ان کے بقول بجٹ خسارہ پورا کرنے کے ليے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ابھی نئے ٹیکس بھی لگیں گے اور بجلی اور گیس کی قیمتیوں میں بھی جلد اضافہ ہو گا۔ ''حکومت کا خیال ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح پچیس فیصد کے قریب ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ شرح پینتیس فیصد سے بھی اوپر جا چکی ہے۔‘‘
میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق پاکستان میں نئے ٹیکسز لگانے کے ليے حکومت دو آرڈیننس لانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوست ممالک نے بھی امداد دینے کے ليے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کی شرط رکھی تھی۔ اس ليے قیمتیں بڑھانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ یاد رہے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی شرائط پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ادھر اپوزیشن نے اس مشکل اقتصادی صورتحال کو مواقع میں بدلنے کے ليے پوائنٹ اسکورنگ تیز کر دی ہے، جس سے اقتصادی بحران سے نکلنے کے ليے کسی قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے ممکن نظر نہیں آ رہی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقتصادی بحران کو حل کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
ممتاز اقتصادی تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصلاح احوال کے ليے ضروری ہے کہ پہلے غلطیوں کو تسلیم کریں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہر جماعت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر ملبہ ڈالنے میں مصروف ہے اور ملکی مفاد پر ذاتی اور سیاسی مفادات غالب آ چکے ہیں۔ ''ہم سے پہلے سری لنکا اور کئی دوسرے ممالک اس صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ کرپشن، مس گوورننس اور ذاتی مفادات کی طویل تاریخ نے ہمیں آ ج یہ دن دکھایا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اشرافیہ کے سارے دھڑے ملک کی خاطر مل کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالیں جس سے عوام کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔‘‘
پولیٹیکل اکانومی کی ایک ماہر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں لبرل معیشت ہے اور حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں۔ وہاں مارکیٹ فورسز ہی مارکیٹ کو ریگولیٹ کرتی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں اقتصادی سرگرمیوں کو رياست ریگولیٹ کرتی ہے، وہاں جب تک ریاست کی سیاسی قوتیں سیاسی استحکام حاصل نہیں کر لیتیں، تب تک ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں فرخ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کو اس اقتصادی بحران تک پہنچانے کا ذمہ دار کسی ایک حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس تباہی تک ملک کو پہنچانے میں ماضی کی ساری حکومتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کے خیال میں اصلاح احوال کے ليے ضروری ہے کہ ریاست کاروبار سے باہر آئے، حکومت سادگی اختیار کرے اور پاکستان اسٹیل مل، ریلویز اور پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔
یاد رہے کہ چھیاسی ملین پاکستانی شہری غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، تقریباً ستر فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور بیالیس فیصد پاکستانی سیورج کی مناسب سہولتوں سے محروم ہیں۔