پھولوں کی طاقت: وہ پھول جو آپ کھا سکتے ہیں
پھول صرف دیکھنے میں ہی خوبصورت نہیں ہوتے بلکہ انہیں کھایا بھی جا سکتا ہے۔ یہ پھول اور ان کی پنکھڑیاں اور پتیاں سلاد، شربتوں، میٹھے کھانوں اور مختلف اقسام کی چائے کو اپنے اپنے مخصوص ذائقے فراہم کرتی ہیں۔
رنگین ذائقے
بہت سی ثقافتوں اور معاشروں میں روایتی کھانے پکانے کے لیے پھولوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں تلنے یا پھر اچھی طرح جما لینے کے بعد یا پھر سلاد اور سوپ وغیرہ میں بالکل تازہ توڑ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان نو پھولوں پر ایک نظر، جو سب سے زیادہ کھائے جاتے ہیں۔
ہلکا مصالحے دار اور صحت مند
گُل لادن کا رنگ سرخ اور نارنجی کی طرح کا ہوتا ہے۔ چٹ پٹے ذائقے والا یہ پھول کسی بھی کھانے میں ایک بہترین اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ اصل میں اس پودے کا زمین سے باہر موجود پورا حصہ قابل استعمال ہوتا ہے۔ یہ پھول وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے۔ سن 2013ء میں جرمن سائنسدانوں نے اسے طبی فوائد کا حامل پھول قرار دیا تھا۔
پھولوں کی چھت
خمان یا پھر اقطی (ایلڈر ٹری) کے نام سے مشہور یہ پھول گرمیوں کے موسم میں کھلتے ہیں۔ سفید رنگ کے ان چھوٹے چھوٹے پھولوں کی خوشبو تیز ہوتی ہے۔ ان پھولوں کو شربت، چائے، سرکہ اور جیلی وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انتہائی نفیس خوشبو
سرخ گلاب نہ صرف پیار اور محبت کی علامت سمجھے جاتے ہیں بلکہ ان کی پتیوں کو کیک، مٹھائیاں اور بہت سے کھانے بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں عرق گلاب کو کھانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مرصبان کی تیاری میں بھی یہی استعمال ہوتا ہے۔
گُل بنفشہ
کھانوں کی سجاوٹ میں جامنی رنگ والے یہ پھول سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ انہیں بھی مختلف کیک اور میٹھے کھانے بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی پتیاں خوش ذائقہ ہوتی ہیں اور ان کی دھیمی خوشبو سلاد اور سوپ کو مزید لذیذ بنا دیتی ہے۔
گُل مرواریدی
جہاں گھاس ہو گی وہاں اکثر مرواریدی پھول بھی نظر آئیں گے۔ لان وغیرہ میں بچے بھی ان سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس پھول کی پتیوں کو سلاد وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھایا جا سکتا ہے۔
گُل قاصدی (ککروندا)
یہ بھی گھاس میں اگنے والا ایک پھول ہے۔ ایک جڑی بوٹی کی طرح اگنے والے اس پھول کو بھی کھایا جا سکتا ہے۔ ان پھولوں کو چھوٹا چھوٹا کاٹ کر سلاد کے ساتھ ملایا اور سبزیوں کے ساتھ پکایا بھی جا سکتا ہے۔ بہتر ذائقے کے لیے اسے جیلی اور شراب کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
صَد بَرگ (گیندا)
سورج کی کرنوں جیسے اس پھول کو ’غریب آدمی کا زاعفران‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں سوپ اور مکھن کو زرد رنگ دینے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کی پنکھڑیوں کو کھایا بھی جا سکتا ہے اور اس پھول کا استعمال زخموں کے علاج کے لیے جانے والے مرہم میں بھی ہوتا ہے۔
بنفشه دورگه (پینزی)
یہ وایولا نسل کا پھول ہے، جس میں بنفشہ بھی شامل ہے۔ جرمنی میں اس پھول کی سینکڑوں اقسام ہیں اور انہیں ’سوتیلی ماں‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس پھول کی پتیاں میٹھی ہوتی ہیں اور ان پتیوں کو کسی بھی سلاد کو رنگا رنگ بنانے اور سوپ وغیرہ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جنگلی مٹر کے پھول
جنگلی مٹر کے پھول میٹھے ہوتے ہیں اور انہیں توڑنے کے بعد بغیر کوئی چیز ساتھ ملائے کھایا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن دھیان رہے کہ یہ پھول عام مٹر کے پھولوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ عام مٹر کے پھول کڑوے اور زہریلے بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔