پہلی عالمی جنگ کا خاموش میدانِ جنگ
بیلجیم کی عوام نے دو لاکھ یورو جمع کر کے زمین میں مدفون قلعہ نما خندقیں تلاش کی ہیں۔ یہ قلعہ بند خندقیں پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن فوجیوں نے بنائی تھی۔ ان میں سے ایک سو ہلاک شدہ جرمن فوجیوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
چلو! چلو پہاڑ کو کھودیں
بیلجیم کے ماہر آثارِ قدیمہ سائمن وردیغم کو اس کا یقین تھا کہ ویٹشیٹے کا مقام جرمن فوج کا مضبوط گڑھ تھا اور یہیں وہ قدیمی باقیات دقن تھیں جنہیں بعد ازاں ’پہلی عالمی جنگ کا پومپئی‘ قرار دیا گیا۔ ایک ہاؤسنگ اسکیم کی کھدائی کے دوران قدیمی قلعے کے نقوش دستیاب ہوئے اور عوامی حمایت سے مزید کھدائی کی گئی۔
قدیمی اشیاء کا مرکز اور ہزاروں باقیات
کھدائی کرنے والوں کو ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ قرار دیا گیا۔ اس کے لیے عام لوگوں نے چندہ جمع کیا۔ کام کرنے والوں میں کئی بغیر کسی معاوضے کے شریک ہوئے۔ ان افراد نے توقع کے مطابق ایک بیش قیمت مقام کو تلاش کر لیا جہاں ہزاروں اوزار اور ہتھیار دستیاب ہوئے۔
یہاں فوجیوں نے کھدائی سن 1914 میں کی
ویٹشیٹے کا مقام بیلجیم کے اِپرس شہر کے قریب ہے اور یہ فلانڈرز صوبے کا حصہ ہیں۔ یہ بیلجیم کے شمالی ساحلی پٹی کا اندرونی علاقہ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اِپرس کا شہر برطانوی فوج کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ انگلش چینل سے جرمن فوج کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ اس باعث جرمن فوج کی چڑھائی کو روکنا تھا۔ ویٹشیٹے کے مقام پر جرمن فوجیوں کو روک دیا گیا اور پھر انہوں نے قلعہ نما خندقیں کھودیں۔
عسکری نقطہ نظر سے اہم
اِپرس شہر پر برطانیہ کی توجہ تھی تو ویٹشیٹے کی پہاڑی جرمن فوج کی نگاہ میں اہم تھی اور اس بلند جگہ کو ’ہوہے 80 ‘ یا ’ہِل 80‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً اناسی میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑی سے جرمن کمانڈر اِپرس شہر میں ہونے والی فوجی سرگرمیوں پر واضح طور پر نگاہ رکھنے کی پوزیشن میں تھے۔
گولہ باری سے ویٹشیٹے تباہ ہو گیا
پہلی عالمی جنگ کے تنازعے کے دوران گولہ باری سے ویٹشیٹے کا گاؤں ملیا میٹ ہو کر رہ گیا۔ لیکن اس جگہ پر کھودی گئی خندقوں میں تب بھی فوجی سلامت رہے۔ خندقوں کا اوپری حصہ تباہ ہونے کے باوجود نچلے حصے میں موجود جرمن فوجی اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے تھے۔
فوجیوں کی باقیات اور ایک سو نعشیں
’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کو کھدائی کے دوران قطعی لاعلم تھی کہ ان قلعہ نما خندقوں میں سے کیا برآمد ہو گا۔ ان خندقوں میں فوجیوں کے زیر استعمال چمڑے کی پیٹیاں، ایک سپاہی کا ہیلمٹ ابتدا میں دستیاب ہوا۔ اندازہ لگایا گیا کہ جرمن فوجیوں کو ابتدائی ایام میں پہلی عالمی جنگ کی شدت کا احساس نہیں تھا۔ وہ اتنے متحرک بھی نہیں تھے کہ اپنے فوجیوں کی نعشیں واپس پہنچا سکیں۔ ایک سو مردہ فوجیوں کی باقیات دستیاب ہوئیں۔
’خیموں میں مسلسل رہنا کوئی خوشی کی بات نہیں‘
مردہ فوجیوں کے احترام میں ڈوئچے ویلے نے اس کا فیصلہ کیا کہ ایسی تصاویر نہیں لی جائیں گی، جن میں نعشوں کی باقیات نظر آئیں۔ اس مقام کی بھرپور ریسرچ کے لیے ماہرین بشریات اور آثارقدیمہ نے خیمے لگا کر اپنے کام کو جاری رکھا۔ ایک سابقہ برطانوی فوجی اور کھدائی کے رضاکار ناتھن ہووارتھ کا کہنا ہے کہ لوگ ان باقیات کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں۔
’ اوہ! یہ چھڑی تو میری ہے‘
برطانوی فوجی ناتھن ہووارتھ نے اُس واکی ٹاکی کو اپنی چھڑی قرار دیا جو بارودی اسلحے کی دستیابی پر ماہرین اور دوسرے نگران اہلکاوں کو مطلع کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس باعث کھدائی کا عمل احتیاط کے ساتھ جاری رکھا گیا۔
وقت کی ریت کا تھیلا
اس کھدائی کے دوران ایک ریت کا تھیلا بھی دستیاب ہوا، جس نے تقریباً ایک صدی تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی تھی۔ اس ریت کے تھیلے کے محفوظ رہنے پر سبھی ماہرین کو حیرت ہوئی کہ یہ رسنے والے پانی اور کیچڑ ہو جانے والی مٹی میں محفوظ کیسے رہا۔
کھدائی کرنے والوں کی بہتات
ویٹشیٹے میں ’ڈِگ ہِل 80 ٹیم‘ کا کھدائی کا مشن جمعہ تیرہ جولائی کو مکمل ہوا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ڈوئچے ویلے کے نمائندے نے بھی اس مقام کا دورہ کیا۔ نیچے کی بہت نرم زمین کی کھدائی بھی کی گئی اور اس کا مقصد مزید کسی قدیمی شے کی تلاش تھا۔
’بہت کچھ دستیاب ہوا ہے‘
ویٹشیٹے کی پہاڑی کی کھدائی کی ٹیم کئی اقوام کے رضاکاروں پر مشتمل تھی۔ ان کا تعلق بیلجیم، برطانیہ اور بہت سے دوسرے ملکوں سے تھا۔ کھدائی کے دوران فٹ بال ورلڈ کپ پر بھی بحث و تمحیص جاری رہی۔ ہر کھدائی کرنے والا کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔
چند مربع کلومیٹر اور قیمتی اشیا
قلعہ نما خندقوں کی کھدائی کا علاقہ چند کلومیٹر پر محیط ہے لیکن اس رقبے میں سے کئی قیمتی اشیا دستیاب ہوئی ہیں۔ بعض کا تعلق فرانسیسی فوجیوں سے بھی ہے۔
’یہ پانی مت پییں‘
فوجی پانی پینے کے لیے تھرموس یا فلاس استعمال کرتے ہیں اور اس کھدائی میں بھی ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بند فلاسکس ملی ہیں۔ ان کے ہلانے سے ان میں پانی کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ان بوتلوں کے پانی فوری طور پر ضائع کر دیا۔ ان کو بہانے پر کیے گئے سوال کا جواب دیا کہ ہر فلاسک میں پانی نہیں ہے اور بعض میں سے پٹرول بھی ملا ہے۔