پہلی عالمی جنگ کے بعد ورسائے کے تاریخی امن معاہدے کے سو سال
28 جون 2019اس دور کے جرمن چانسلر فیلپ شائڈےمان کی امن کی نرم شرائط کی خواہشات پوری نہیں ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیرس امن کانفرنس میں کیے جانے والے فیصلے ناقابل قبول تھے۔ اس سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان نے اس بارے میں اپنے جذبات کا اظہار بڑے واضح استعاراتی انداز میں کیا تھا۔ انہوں نے پوچھا تھا، ''وہ کون سا ایسا ہاتھ ہو گا، جسے خود کو اور ہمیں یہ ہتھکڑیاں پہنانے کی وجہ سے خشک اور بنجر نہیں ہو جانا چاہیے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے شائڈےمان نے، جنہوں نے نو نومبر 1918ء کو برلن میں جرمن جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا، اس وقت کی جرمن ریاست میں پائے جانے والے عوامی جذبات ہی کی ترجمانی کی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد طے پانے والا یہ امن معاہدہ اس دور کی نئی نئی جمہوری جرمن ریاست کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ثابت ہونا تھا۔
زر تلافی اور جرمن نوآبادیوں سے محرومی
تب جرمن ریاست کو نہ صرف اربوں مالیت کے زر تلافی کی ادائیگیوں کا پابند بنا دیا گیا تھا بلکہ اسے افریقہ، ایشیا اور بحرالکاہل میں جرمن نوآبادیوں سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی جرمنی کو اپنے ریاستی علاقے کے 13 فیصد حصے سے دستبردار ہونے پر بھی مجبور کر دیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ ایلزاس لوتھرِنگن کا علاقہ فرانس کے پاس چلا گیا اور مغربی پرُوشیا کا زیادہ تر حصہ پولینڈ کو دے دیا گیا تھا۔
پھر امریکا، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی قیادت میں فاتح اتحادی طاقتوں نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ پہلی عالمی جنگ شروع کرنے کی تمام تر ذمے داری جرمنی اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی تھی۔ انہوں نے ہی یہ جنگ اپنے مخالفین پر مسلط کی تھی اور وہی اس جنگ کی وجہ سے ہونے والے تمام تر نقصانات کے ذمے دار بھی تھے۔
فاتحین کی جرمنی پر فوجی چڑھائی کی دھمکی
پہلی عالمی جنگ کے باقاعدہ اختتام کی وجہ بننے والے اور فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ورسائے کے محل میں جس امن معاہدے یا 'ورسائے ٹریٹی‘ پر 28 جون 1919ء کے روز دستخط کیے گئے تھے، اس پر جرمن چانسلر شائڈےمان نے اس لیے دستخط نہیں کیے تھے کہ تب وہ مستعفی ہو چکے تھے۔ پھر جرمنی نے اگر اس دستاویز پر دستخط کیے بھی تھے، تو وہ احتجاجاﹰ کیے گئے تھے کیونکہ تب جنگ کے فاتحین نے یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ جرمن ریاست پر چڑھائی کر دیں گے۔ اس وقت جرمنی کا علاقہ رائن لینڈ تو 11 نومبر 1918ء کی جنگ بندی کے بعد سے ہی اتحادیوں کے قبضے میں تھا۔
ورسائے کے امن معاہدے کو اس میں رکھی گئی کڑی شرائط کی وجہ سے اس وقت کی جرمن ریاست نے 'زبردستی اور حکم دے کر قائم کیا گیا امن‘ یا Dictated Peace قرار دیا تھا۔ کئی مؤرخین کے مطابق تب جرمنی نے ورسائے امن معاہدے کے لیے ہونے والی بات چیت میں بھی حصہ نہیں لیا تھا اور یوں جرمنوں کو اس معاہدے کی حتمی شکل میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں ملا تھا۔
'زبردستی امن‘ میں بعد ازاں تبدیلی
جنگ کے بعد جرمنی کو جن تلافی رقوم کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا تھا، ان کی مالیت میں شکست خوردہ جرمن ریاست کی مالی ادائیگیوں کی اہلیت دیکھتے ہوئے کافی کمی بھی کر دی گئی تھی۔ 1921ء میں فاتح طاقتوں نے جرمنی کو 132 ارب مارک کی جن تلافی رقوم کی ادائیگی کا پابند بنایا تھا، اس میں اس عشرے کے اختتام تک جرمنی کے ساتھ طویل مذاکرات کر کے اتنی کمی کر دی گئی تھی کہ تب اس ازالے کی مالیت 36 ارب مارک کر دی گئی تھی۔ 1932ء میں تو عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے ان ادائیگیوں کو پوری طرح روک ہی دیا گیا تھا۔ اس اقدام کا اس دور کی جرمن ریاست پر مثبت مالیاتی اثر پڑا تھا۔
ہٹلر نے امن معاہدے کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا
1933 تک جرمنی میں کوئی بھی راستہ براہ راست نازی آمریت کی طرف نہیں جاتا تھا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس دور کے دائیں بازو کے جمہوریہ مخالف عناصر نے ورسائے کے امن معاہدے کو ایک ایسے آلے کے طور پر استعمال کیا، جس کے ذریعے جمہوریت کا مقابلہ کرتے ہوئے اور جمہوریت کو مکمل طور پر تباہ کرنا بھی ایک مقصد تھا۔ اس دور کے جرمنی میں سیاسی قتل بھی کوئی انہونی بات نہیں تھے۔ مثال کے طور پر اس دور کے وزیر خارجہ والٹر راتھےناؤ کو بھی دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے 1922ء میں برلن میں گولی مار دی تھی۔ ایسے سیاسی عناصر کے لیے ترقی پسندانہ جمہوریت ایک قابل نفرت بات تھی، جس کا مقصد پہلی عالمی جنگ جیتنے والی اتحادی طاقتوں کی طرف سے ان کی 'کامیابی کی سیاست‘ کو یقینی بنانا تھا۔
ہٹلر کا اقتدار میں آنا
ورسائے کے امن معاہدے کے ساتھ مستقل اور دیرپا امن کی خواہشات پوری نہ ہو سکی تھیں۔ اڈولف ہٹلر کی صورت میں نازی سوچ اقتدار میں آئی تو جرمنی کی طرف سے ہچکچاہٹ کا دور بھی ختم ہو گیا۔ یورپ کی فاشسٹ طاقتوں مثال کے طور پر اٹلی اور اسپین کے ساتھ نئے اتحاد بنائے گئے۔ اس دوران برطانیہ کی خوش رکھنے کی سیاست بھی اپنی منزل سے دور ہوتی گئی اور امریکا کا یورپ میں کردار بھی بہت فعال نہیں رہا تھا۔ پھر ہوا یہ کہ اس امن معاہدے کے ساتھ ہی اقوام عالم کے جس اتحاد کی بات کی گئی تھی، وہ بھی دوسری عالمی جنگ کی صورت میں ایک نئی عالمگیر تباہی کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
مارسیل فیورسٹیناؤ / م م / ک م