پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں رسہ کشی
5 نومبر 2024حال ہی میں ہونے والے نیلامی کے عمل میں وفاقی حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں ناکام رہی، جس کے بعد تقریباً تمام حلقوں نے اسے نااہلی پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر خیبرپختونخوا حکومت نے حکومت کی جانب سے نجکاری کے لیے پیش کیے گئے ایئر لائن کے 60 فیصد شیئرز خریدنے کی پیشکش کی۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا یا کوئی بھی دوسرا صوبہ اگر ایئرلائن خریدنے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے اور یہ قومی ایئرلائن کی نجکاری کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
'سیاسی پوائنٹ اسکورنگ‘
معروف ماہرِ معیشت قیصر بنگالی نے کہا، ''خیبرپختونخوا حکومت کے پاس ملازمین کی تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں، وہ اتنی بڑی ایئرلائن کیسے خرید سکتے ہیں۔ کوئی پاکستانی کاروباری شخص پی آئی اے کو خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتا، صرف بیرونی فریق ہی ایئرلائن خرید سکتا ہے۔ بیرونی فریق اس وجہ سے حصہ نہیں لیتے کیونکہ ہم معاہدوں کی پابندی نہیں کرتے‘‘۔
انہوں نے حالیہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے اور ریکوڈیک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کے لیے ریاستی معاہدوں کا احترام ضروری ہے۔
صوبائی حکومت کی پیشہ ورانہ صلاحیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے قیصر بنگالی نے کہا، ''وفاقی حکومت کی اہلیت پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے کیونکہ وہ ایئرلائن کو چلانے اور بیچنے میں ناکام رہی ہے اور یہی حال خیبرپختونخوا حکومت کا بھی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایئرلائن کو مختلف کمپنیوں میں تقسیم کر کے جیسے کیٹرنگ، انجینئرنگ اور فلائٹ سروسز اور ہر کمپنی کی مینجمنٹ کو پیشہ ور نجی آپریٹرز کے حوالے کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ایئر لائن کو پروفیشنل انداز سے چلانے کا دعوی
خیبرپختونخوا حکومت نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے وزیر کو ایک خط کے ذریعے ایئرلائن کے پیش کردہ شیئرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ صوبائی حکومت نے پیشکش کی کہ وہ گزشتہ بولی دہندہ سے زیادہ بولی دے گی، جس نے صرف 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی، جو کہ حکومت کے مقرر کردہ 85 ارب روپے کی کم از کم قابل قبول بولی کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ تاہم صوبائی حکومت نے خط میں اپنی بولی کی رقم کا ذکر نہیں کیا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے خط میں کہا کہ اسے ایئرلائن کو '’پروفیشنل انداز‘‘ میں چلانے میں دلچسپی ہے، اور یہیں سے اہلیت ثابت کرنے کی دوڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ لفظ ''پروفیشنل‘‘ خود بخود وفاقی حکومت کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت دونوں ہی پیشہ ورانہ صلاحیت کا دعویٰ نہیں کر سکتیں۔
وفاقی حکومت پہلے ہی ایئرلائن کو چلانے اور اسے فروخت کرنے میں ناکام رہی ہے، جبکہ خیبرپختونخوا حکومت پر تقریباً 1000 ارب روپے کا قرضہ ہے۔ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ''خیبرپختونخوا میں بجلی کی لائن لاسز 50 فیصد سے زیادہ ہیں، تو وہ اہلیت کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
کے پی حکومت پی آئی اے کو نہیں چلا سکتی، ڈاکٹر اشفاق
ایک اور ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق نے کہا، ''جب وفاقی حکومت ایئرلائن نہیں چلا سکی تو خیبرپختونخوا حکومت ایئرلائن کیسے چلا سکتی ہے؟ میں خیبرپختونخوا کی پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، اور اگر کوئی اور صوبہ ایسی پیشکش کرتا ہے تو وہ بھی صرف سیاسی ہو گی‘‘۔
انہوں نے مزید کہا، ''خیبرپختونخوا حکومت کے پاس 85 ارب روپے نہیں ہیں، ان کے پاس ملازمین کی تنخواہیں دینے کے وسائل بھی نہیں ہیں، تو وہ ایئرلائن کیسے خرید سکتے ہیں؟‘انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کی موجودہ کشمکش کی وجہ سے، جو پہلے پی ٹی آئی حکومت کے دوران ایئرلائن کو بدنام کرنے اور اس کے پائلٹوں کی ساکھ پر سوال اٹھانے سے شروع ہوئی، اب موجودہ سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے ایئرلائن وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گی۔ انہوں نے کہا، ''پی آئی اے قومی خزانے کو نقصان پہنچاتی رہے گی اور خیبرپختونخوا حکومت جانتی ہے کہ یہ فروخت نہیں ہو گی، اسی لیے انہوں نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کر دی ہے۔‘‘
آخری فیصلہ وزیراعظم کا ہو گا، علیم خان
وزیرِ نجکاری علیم خان نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر صوبے پی آئی اے خریدنا چاہتے ہیں تو انہیں قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک صرف خیبرپختونخوا نے دلچسپی ظاہر کی ہے، تاہم فیصلہ وزیر اعظم کریں گے کہ آیا پی آئی اے کو کسی صوبے کو بیچا جائے یا نجکاری کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے۔
پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق معاملات سے باخبر حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قومی ایئرلائن کے شیئرز خریدنے پر صوبوں کے لیے کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ اگر عمل دوبارہ شروع نہ کیا گیا تو حکومت کسی صوبے کی مناسب بولی کو قبول کر سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ایئرلائن کی نجکاری کے لیے اگلے اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں جاری ہیں اور امکان ہے کہ عمل کو نئی شرائط کے تحت دوبارہ شروع کیا جائے گا۔