پی ایس ایل تھری کا پہلا راؤنڈ مکمل، نیا ٹیلنٹ سامنے نہ آسکا
6 مارچ 2018پی ایس ایل کی نئی ٹیم ملتان سلطان نے افتتاحی شب زلمی کواپ سیٹ کرنے کے بعد سے مسلسل حیرت انگیز کارکردگی دکھاتے ہوئے پہلا راونڈ سات پوائنٹس سے جیت لیا۔ ٹورنامنٹ میں سلطانز کے باؤلنگ اٹیک نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اس کے فاسٹ باؤلر جنید خان لاہور قلندرز اور اسپنر عمران طاہر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف ہیٹرک کر چکے ہیں۔ کراچی کنگز سے الگ ہو کر ملتان سلطانز کا حصہ بننے والے کمارا سنگاکارا 177 رنز کے ساتھ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر ہیں۔
قرض ابھی باقی ہے
پاکستان سپرلیگ کو نیا ٹیلنٹ سامنے لانے کا پلیٹ فارم خیال جاتا ہے۔ لیگ کے پہلے سیزن میں پشاور زلمی نے حسن علی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے محمد نواز کو متعارف کرایا تھا۔ دوسرے سیزن میں شاداب خان اور فخر زمان کو سامنے لانے کا سہرا اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے سر رہا۔ پی ایس ایل ہر ٹیم کے لیے ایک ایمرجنگ کھلاڑی کھلانا ضروری شرط ہے۔ لاہور قلندرز نے رواں برس پہلے کشمیری کرکٹر سلمان ارشاد اور فاٹا کے شاہین شاہ، زلمی نےلیگ اسپنر ابتسام شیخ اور یونائیٹد نے اوپنر صاحبزادہ فرحان کو مواقع فراہم کیے لیکن ان سب میں کوئی بھی ایسا دکھائی نہیں دیا جو گزرے برسوں کی طرح انضمام اینڈ کمپنی کی نظروں کو فوری بھا جائے۔
باؤلرز اور باؤنسرز کا راج
ٹی ٹونٹی کو بیٹسمین کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن پی ایس ایل کے رواں سیزن میں سست اور تھکی ہوئی خیلجی پچوں پر ان دنوں باؤلرز کا راج ہے۔ شارجہ میں کھیلے گئے چھ میچوں میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کا اوسط اسکور صرف 125 رہا اورکراچی وہ واحد ٹیم رہی جس نے اسلام آباد کے خلاف 153 رنز بنا کر ڈیڑھ سو کا ہندسہ عبورکیا۔ دبئی میں اس سیزن کا اوسط اسکور 146 رہا ہے لیکن وہاں بھی کوئی ٹیم تاحال 180 رنز تک نہیں پہنچ پائی۔ ملتان سلطانز کے جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے لیگ اسپنر عمران طاہر دس وکٹوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کے سب سے کامیاب باؤلر ہیں۔ دراصل ایونٹ میں فاسٹ باؤلرز کا طوطی بول رہا ہے۔ باؤنسر پاکستان سپرلیگ میں پیسرز کا سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹد کے محمد سمیع، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے شین واٹسن، ملتان کے محمد عرفان اور پشاور زلمی کے وہاب ریاض نے زیادہ تر وکٹیں باونسرز پر ہی لی ہیں۔ امارات میں رواں کرکٹ سیزن گزشتہ برس ستمبر میں پاکستان اورسری لنکا کی سیریز سے شروع ہوا تھا۔ بعد ازاں ٹی ٹین اور ایسوی ایٹس ممالک کے مسلسل میچ ہونے سے بھی دبئی اور شارجہ کی وکٹیں سیزن کے آخر میں بہتر پرفارمنس دینے سے قاصر لگ رہی ہیں۔ ان پر نا صرف چوکے چھکے لگانا مشکل ہے بلکہ پچوں کے’ڈبل پیس‘ ہونے کی وجہ سے بیٹسمین کو باؤنسر کی رفتار کا بھی اندازہ نہیں ہو پا رہا۔
اونچی دکان پھیکا پکوان
لاہور قلندرز پاکستان سپرلیگ میں سب سے بڑا برینڈ خیال کی جانے والی ٹیم ہے۔ سال بھر اس فرنچائز کا ڈھنڈورا ملک کے طول عرض میں پیٹا جاتا ہے لیکن اسٹار کھلاڑیوں پر مشتمل اس ٹیم کےمیدان پر اترتے ہی غبارے سے ہوا نکلنے میں کبھی دیر نہیں لگتی۔ ماضی کی طرح اس سیزن میں بھی لاہور قلندرز کے سینے پر پڑا ناکامیوں کا پتھر سرکنے کا نام نہیں لے رہا اور اسے پہلے راؤنڈ کے پانچوں میچوں میں بری طرح شکست ہوچکی ہے۔ پشاور زلمی کے ہاتھوں شارجہ میں 100 رنز پر آل آوٹ ہونے کے بعد لاہور کو دس وکٹوں سے منہ کی کھانا پڑی جو اب تک پی ایس ایل کی تاریخ میں کسی بھی ٹیم کی ناکامی کا سب سے بڑا مارجن ہے۔
لاہور قلندرز نے پہلے تین میچوں میں تین وکٹ کیپرز عمر اکمل، گلریز صدف اور دنیش رام دین کو آزمایا۔ دنیا کے بہترین اوپنرز میں شمار کیے جانے والے فخز زمان کو بلاوجہ ’ڈی موٹ‘ کر کے ان کی جگہ ٹیل اینڈر سنیل نارائن سے اوپننگ کا ناکام تجربہ کیا گیا۔ ایسی بے سر و پا تبدیلیوں اور فیصلوں کے بعد دباؤ میں آنیوالے کپتان برینڈن میکلم کو اپنے کھیلنے کا جارحانہ انداز بھی تبدیل کرنا پڑا لیکن اسلام آباد یونائیٹد کے خلاف سپر اوور میں شکست نے اس ٹیم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ لاہور ٹیم اور اس کے مالکان ان دنوں پاکستانی ٹی وی کامیڈینز کی چھیڑ چھاڑ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ایک دل جلے کا رد عمل تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پی ایس ایل میں اس بار بھی صرف پانچ ہی ٹیمیں کھیل رہی ہیں۔ لاہورسے تعلق رکھنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر اکرم رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لاہور کی شکست کی ایک بڑی وجہ اس کی ٹیم انتظامیہ اور کوچنگ اسٹاف میں لیجنڈز کرکٹرز کا نہ ہونا ہے۔ اکرم رضا کے بقول دوسری ٹیموں کے کیمپ میں سر ویوین رچرڈز، وسیم اکرم، وقار یونس اور یونس خان جیسے عظیم کھلاڑی موجود ہیں اور لاہور اپنے مینٹر انضمام الحق کی خدمات سے بھی استفادہ کرنے سے قاصر ہے جنہیں مفاداتی کشمکش کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے لاہور قلندرز کے ’ڈگ آؤٹ‘ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔
کراچی میں فائنل اور مشکلات
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے دبئی سے کراچی آکر ایک بار پھر 25 مارچ کو وہاں ہونے والے فائنل کے بارے میں مطلع صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی سی بی کو کراچی کی سکیورٹی کلیئرنس پہلے ہی مل چکی ہے لیکن اصل مسئلہ نیشنل اسٹیڈیم کے تعمیراتی کام کا ہے جو جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تاہم کراچی کنگز کی موجودہ ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی نے اہل کراچی کے اپنی ٹیم کو گھر پہ فائنل کھیلتے دیکھنے کی امیدوں میں اضافہ کیا ہے۔
اسٹار کھلاڑیوں کا مسلسل ان فٹ ہونا بھی پی ایس ایل منتظمن کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ٹورنامنٹ سر پر تھا جب لاہور کو ٹی ٹونٹی چھکوں کے لیے مشہور کرس لین کا کندھا زخمی ہونے کی خبر ملی۔ کوئٹہ کے کیون پیٹرسن اور جوفرا آرچر بھی زخمی ہوچکے ہیں۔ پشاور زلمی کو بھی ڈیوائن برارو اور شکیب الحسن کی چوٹوں نے چین سے رہنے نہ دیا۔ اس وقت اسلام آباد یونائیٹڈ نائب کپتان رومان رئیس اور آندرے رسل جبکہ کراچی کنگز شاہد آفریدی کے بغیر کھیلنے پر مجبور ہے۔