پی ٹی آئی کا اتحاد: کیا مخصوص نشستیں ملیں گی؟
20 فروری 2024پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور جمعیت علمائے اسلام نظریاتی گروپ کے ساتھ اتحاد کیا ہے لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان اتحادوں کے باوجود اس کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں اور خواتین کے حوالے سے مخصوص نشستوں میں سے بھی چند نشستیں مل سکیں گی یا نہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد امیدواروں کے طور پر انتخابات لڑے اور پاکستان کے انتخابی قوانین کے مطابق قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی مل سکتی ہیں، جن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت مخصوص نشستوں کے لیے نامزد امیدواروں کی فہرستیں بھی دیں۔
پی ٹی آئی اور اتحایوں کی اُمیدیں
مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل دونوں کے ہی بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ فہرستیں جمع نہیں کرائیں۔ جمیعت علماء اسلام نظریاتی نے صرف چند مخصوص نشستوں کے لیے ہی فہرستیں جمع کرائیں ہیں۔ جے یو آئی نظریاتی کے سیکرٹری جنرل مولانا گل نصیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔ تاہم ہمارے کچھ امیدوار تحریک انصاف کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے اور یہ پاکستان کی سطح پر ہے۔‘‘
مولانا گل نصیب کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کہے گی کہ ان کے اراکین کے نام دے دیے جائیں، تو ویسا ہو جائے گا۔ ڈی ڈبلیو کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے مولانا گل نے کہا، ''ہم بالکل ان ناموں میں رد و بدل کر سکتے ہیں ہم نے پی ٹی آئی کو کہا ہے کہ پہلے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فہرستیں دے دیں۔ اگر آپ کو ہماری ضرورت پڑے گی تو ہم بالکل حاضر ہیں۔‘‘
مولانا گل نصیب کی طرح پی ٹی آئی کے بھی کچھ رہنما پُرامید ہیں کہ انہیں آسانی سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی کنول شوزب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں امید ہے کہ ہمیں یہ نشستیں ملیں گی کیونکہ یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ہمیں مجموعی طور پر 21 یا 22 نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی میں پنجاب سے 30 اور خیبر پختونخوا سے 24 نشستیں مل سکتی ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رہنما مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ہر حالت میں مخصوص نشستیں ملیں گی۔ ''اور قانونی رکاوٹ اس میں حائل نہیں ہو سکتی۔‘‘
ای سی پی کی وضاحت
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار اس حوالے سے واضح قوانین کا تذکرہ کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مخصوص نشستوں کے لیے فہرست 26 جنوری کو جمع کرانی تھی۔ اگر سنی اتحاد کونسل نے یہ فہرست جمع نہیں کرائی ہے، تو ان مخصوص نشستوں کا ملنا ناممکن ہے۔‘‘
سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پی پی پی کے ایک رہنما صابر علی بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی یا فہرست جمع کرانے کی ایک مخصوص تاریخ ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کربھی لیا ہے لیکن سنی اتحاد کونسل نے کاغذات نامزدگی کے موقع پر مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں نہیں دی تھیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی کو یہ مخصوص نشستیں مل سکیں۔‘‘
قانونی نظیریں موجود ہیں
تاہم کنول شوزب کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی ماضی میں ایسی فہرستیں جمع نہیں کرائی تھیں اور یہ کہ انہوں نے بعد میں آزاد امیدواروں کے ساتھ اتحاد کر کے پارلیمنٹ میں یہ نشست حاصل کر لی تھیں۔ مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2018 ء میں ان کی نشست کے حوالے سے وقت پر فارم جمع نہیں کرایا تھا۔ ''مخصوص نشست کے لیے فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ 11 جون دوہزار اٹھارہ تھی لیکن ہم نے اسے 12 جون کو جمع کرایا۔ الیکشن کمیشن نے اس لیے ہمارے پیپر کو جانچ پڑتال کے دوران مسترد کر دیا۔ اس کے بعد الیکشن ٹریبونل اور لاہور ہائی کورٹ کی ایک سنگل بینچ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔‘‘
مہندر پال سنگھ کے مطابق تا ہم انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی ڈبل بینچ میں پٹیشن دائر کی۔ انہوں نے کہا، ''اور وہاں پر ڈبل بینچ نے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا تو ایسی قانونی مثالیں موجود ہیں لیکن قوی امکان یہ ہے کہ اس کا فیصلہ عدالتوں میں ہی ہوگا۔‘‘
سیاسی درجہ حرارت
دوسری طرف پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی چیف الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بھی بحرانی کیفیت طاری ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے کسی کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ایک شخص کے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے نئی حکومت کی تشکیل ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔
صابر علی بلوچ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی معنی خیز پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔