1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا اتحاد: کیا مخصوص نشستیں ملیں گی؟

20 فروری 2024

پاکستان تحریک انصاف مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے باوجود مختص نشستوں کے حصول سے دور نظر آرہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4cco4
Pakistan Lahore PTI-Büro
تصویر: Tanveer Shahzad/DW

پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد  کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور جمعیت علمائے اسلام نظریاتی گروپ کے ساتھ اتحاد کیا ہے لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان اتحادوں کے باوجود اس کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں اور خواتین کے حوالے سے مخصوص نشستوں میں سے بھی چند نشستیں مل سکیں گی یا نہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد امیدواروں کے طور پر انتخابات لڑے اور پاکستان کے انتخابی قوانین کے مطابق قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی مل سکتی ہیں، جن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت مخصوص نشستوں کے لیے نامزد امیدواروں کی فہرستیں بھی دیں۔

پی ٹی آئی اور اتحایوں کی اُمیدیں

مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل دونوں کے ہی بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ فہرستیں جمع نہیں کرائیں۔ جمیعت علماء اسلام نظریاتی نے صرف چند مخصوص نشستوں کے لیے ہی فہرستیں جمع کرائیں ہیں۔ جے یو آئی نظریاتی کے سیکرٹری جنرل مولانا گل نصیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔ تاہم ہمارے کچھ امیدوار تحریک انصاف کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے اور یہ پاکستان کی سطح پر ہے۔‘‘

مولانا گل نصیب کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کہے گی کہ ان کے اراکین کے نام دے دیے جائیں، تو ویسا ہو جائے گا۔ ڈی ڈبلیو کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے مولانا گل نے کہا، ''ہم بالکل ان ناموں میں رد و بدل کر سکتے ہیں ہم نے پی ٹی آئی کو کہا ہے کہ پہلے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فہرستیں دے دیں۔ اگر آپ کو ہماری ضرورت پڑے گی تو ہم بالکل حاضر ہیں۔‘‘

Pakistan election commission
الیکشن کمیشن آف پاکستان مخصوص نشستوں کے بارے میں موقف واضح ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

مولانا گل نصیب کی طرح پی ٹی آئی کے بھی کچھ رہنما پُرامید ہیں کہ انہیں آسانی سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی کنول شوزب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں امید ہے کہ ہمیں یہ نشستیں ملیں گی کیونکہ یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔ قومی اسمبلی میں مخصوص  نشستوں  پر ہمیں مجموعی طور پر 21 یا 22 نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی میں پنجاب سے 30 اور خیبر پختونخوا سے 24 نشستیں مل سکتی ہیں۔‘‘

پاکستان الیکشن: لاہور کا انتخابی منظر نامہ

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رہنما مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ہر حالت میں مخصوص نشستیں ملیں گی۔ ''اور قانونی رکاوٹ اس میں حائل نہیں ہو سکتی۔‘‘

ای سی پی کی وضاحت

تاہم الیکشن  کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار اس حوالے سے واضح قوانین کا تذکرہ کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مخصوص نشستوں کے لیے فہرست 26 جنوری کو جمع کرانی تھی۔ اگر سنی اتحاد کونسل نے یہ فہرست جمع نہیں کرائی ہے، تو ان مخصوص نشستوں کا ملنا ناممکن ہے۔‘‘

سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پی پی پی کے ایک رہنما صابر علی بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی یا فہرست جمع کرانے کی ایک مخصوص تاریخ ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کربھی لیا ہے لیکن سنی اتحاد کونسل نے کاغذات نامزدگی کے موقع پر مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں نہیں دی تھیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی کو یہ مخصوص نشستیں مل سکیں۔‘‘

Kombi-Bild Zeba Waqar, Saveera Parkash, Samar Haroon Bilour, Wahl Pakistan
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی اہم ہیںتصویر: AFP/Amna YASEEN/Hasham AHMED/Abdul MAJEED

قانونی نظیریں موجود ہیں

 تاہم کنول شوزب کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی ماضی میں ایسی فہرستیں جمع نہیں کرائی تھیں اور یہ کہ انہوں نے بعد میں آزاد امیدواروں کے ساتھ اتحاد کر کے پارلیمنٹ میں یہ نشست حاصل کر لی تھیں۔ مہندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2018 ء میں ان کی نشست کے حوالے سے وقت پر فارم جمع نہیں کرایا تھا۔ ''مخصوص نشست کے لیے فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ 11 جون دوہزار اٹھارہ تھی لیکن ہم نے اسے 12 جون کو جمع کرایا۔  الیکشن  کمیشن نے اس لیے ہمارے پیپر کو جانچ پڑتال کے دوران مسترد کر دیا۔ اس کے بعد الیکشن ٹریبونل اور لاہور ہائی کورٹ کی ایک سنگل بینچ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔‘‘

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

مہندر پال سنگھ کے مطابق تا ہم انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی ڈبل بینچ میں پٹیشن دائر کی۔ انہوں نے کہا، ''اور وہاں پر ڈبل بینچ نے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا تو ایسی قانونی مثالیں موجود ہیں لیکن قوی امکان یہ ہے کہ اس کا فیصلہ عدالتوں میں ہی ہوگا۔‘‘

سیاسی درجہ حرارت

دوسری طرف پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی چیف الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکومت  کی تشکیل کے حوالے سے بھی بحرانی کیفیت طاری ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے کسی کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ایک شخص کے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے نئی حکومت کی تشکیل  ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔

صابر علی بلوچ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی معنی خیز پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔