پی ٹی ایم آئینی جدو جہد جاری رکھے گی، منظور پشتین
27 مئی 2019پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیرگزشتہ روز شمالی وزیر ستان میں ایک احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اس دوران ایک چوکی پر فوج اور پی ٹی ایم کے کارکنان کے درمیان تصادم ہو گیا۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے،’’ فائرنگ کے تبادلے کے دوران تین افراد جنہوں نے فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا، ہلاک ہو گئے اور دس افراد زخمی ہیں، اس واقعہ میں پانچ فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔‘‘ پاکستان کی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،’’ علی وزیر کو آٹھ دیگر افراد کے ہمراہ حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ محسن داوڑ فرار ہیں۔‘‘
دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ نے فوج کے الزامات کی تردید کی ہے۔ محسن داوڑ نے اس حوالے سے وائس آف امریکا دیوا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کی جانب سے فائرنگ نہیں کی گئی۔ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے فیس بک لائیو کے دوران کہا ہے،'' یہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے سابقہ بیان ’اب وقت ختم ہو گیا ہے‘ کی کڑی ہے۔ ہم اس بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں اور پر امن آئینی جدو جہد جاری رکھیں گے۔‘‘
اس معاملے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے ٹویٹ میں لکھا،’’ پی ٹی ایم کے معصوم کارکنان کو احتیا ط کرنا ہوگی۔ صرف چند ہی انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے انہیں سرکاری اداروں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ ‘‘
تجزیہ کارمشرف زیدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’ کئی ماہ تک ہم یہ کہتے رہے کہ پی ٹی ایم کے بیانیے کا جواب فوجی طاقت سے نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا جوب صرف سیاست اور بات چیت کے ذریعے دیا جاسکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ گزشتہ روز کے واقع کے بعد پاکستانی وزیر اعظم مذاکراتی عمل کی قیادت کریں گے۔‘‘
بوسٹن یونیورسٹی میں گلوبل اسٹدیز اسکول کے ڈین عادل نجم نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’ پی ٹی ایم کے معاملے پر ہمیں مذاکرات اور تشفی چاہیے، ہمیں سیاسی بد اطمینانی کو امن و امان یا سکیورٹی معاملہ نہیں بنا دینا چاہیے۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،’’ مقامی لوگوں کی تکالیف جنہیں پی ٹی ایم ایک برس سے زائدعرصہ سے پرامن طریقے سے اجاگرکررہی ہے، کو دورکرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ ایچ آرسی پی کے خیال میں یہ واقعہ پی ٹی ایم کے حامیوں اورسکیورٹی اداروں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤمیں اورزیادہ شدت پیدا کرے گا اورقبائلی اضلاع کے عوام اورریاست کے مابین مستقل خلیج کا سبب بنے گا۔‘‘ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن تشکیل دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔