پی ڈی ایم ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش میں؟
25 جولائی 2022مریم نواز نے پیر کےروز ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں ملکی سپریم کورٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ قواعدوضوابط کی خلاف ورزیوں پر عمران خان کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لیاجاتا؟ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایاکہ اہم سیاسی مقدموں کی سماعت کے لیے عدالتی بینچوں میں صرف چند مخصوص ججوں کو ہی کیوں بٹھایا جاتا ہے اور یہ جج سیاسی رہنماؤں کو مختلف القابات سے کیوں نوازاتے ہیں؟
سیاسی اتحاد کے دوسرے رہنماؤں نے بھی دبے لفظوں میں سپریم کورٹ اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلمشنٹ پر تنقید کی۔ ایک روز قبل اتوار کو ن لیگ کے رہنما میاں جاوید لطیف نے بھی ملکی مقتدر حلقوں پر تنیقد کے نشتر چلائے تھے جب کہ ن لیگ کے دیگر چند رہنما بھی گزشتہ کچھ دنوں سے تواتر کے ساتھ اسی نوعیت کے تنقیدی بیانات دے رہے ہیں۔
پاکستان میں ماضی کے سیاسی اتحادوں کی ٹوٹ پھوٹ اور پی ڈی ایم
بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ماضی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کے مقتدر حلقوں کے خلاف کھلم کھلا تقاریر کی تھیں اور ان کی جماعت ن لیگ نے پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک پورا بیانیہ کھڑا کیا تھا، جس کو بعد میں ایک انتخابی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ یہ پریس کانفرنس ایک نئے بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ن لیگ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ تشکیل کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ انہیں یہ احساس ہے کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد ایک جاندار بیانیہ تشکیل دیا، جس کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب یہ ن لیگ اپنا بیانیہ لانےکی کوشش کر رہی ہے تاکہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔‘‘
بیانیہ جاندار نہیں ہو گا
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کے مطابق ن لیگ طاقتور بیانیہ تشکیل نہیں کر پائے گی۔ ''عوام ان کے اس بیانیہ کو نہیں مانیں گے کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے ایسے بیانئیے تشکیل دیئے اور پھر پیچھے ہٹ گئے۔ اب شہباز شریف نے ان کے بیانئیے کو دفن کردیا ہے۔ یہ فضل الرحمن پر انحصار کر رہے ہیں کہ ان کی افرادی قوت کسی کو ڈرانے کے لئے استعمال کرینگے لیکن عوام ان کے اسے تسلیم نہیں کرینگے۔‘‘
کچھ نہیں چاہیے، پی ڈی ایم بس لکیر سیدھی کرا دے!
مزاحمت کا اشارہ
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی و تجزیہ نگار فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ نون لیگ کو احساس ہوا ہے کہ نیوٹرل مکمل طور پر نیوٹرل نہیں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ن لیگ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر نیوٹرل مکمل طور پر نیوٹرل نہیں رہے تو پھر مزاحمت ہوگی اور اس میں صرف ن لیگ نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں شامل ہوں گی۔‘‘
طاقتور حلقوں کا ممکنہ ردعمل
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اقتدار میں رہنے کے باوجود اگر ن لیگ یا پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ پر اس طرح تنقید کریں گے تو اس کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ جنرل غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ پہلے بھی اس طرح کے بیانات کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا تھا اور اب بھی ان کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ ''ن لیگ میں نواز کے حمایت یافتہ رہنما اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، جو قطعی طور پر پسند نہیں کئے جائیں گے اور میرے خیال ہے کہ وزیر اعظم کو اس حوالے سے پیغام بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔‘‘
پرویز الہی کے لیے وزارت اعلٰی، پی ڈی ایم کے لیے دھچکا
توہین عدالت کا خطرہ
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے جس طرح آج پریس کانفرنس کی ہے اس پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔ لیکن بعض قانونی ماہرین عدالت کو تحمل سے کام لینا کا مشورہ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جس طرح سے اس پریس کانفرنس کی میڈیا میں خبریں آرہی ہیں، اس سے تو بظاہر یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے لیکن میری اپنی رائے میں عدالت کو توہین عدالت کی طرف نہیں جانا چاہیے کیونکہ اس سے تاثر اچھا نہیں جاتا۔ عدالتوں نے ماضی میں بھی تحمل سے کام لیا ہے اور اب بھی لینا چاہیے۔ تاہم یہ افسوسناک بات ہے کہ عدالت کے اس تحمل کا کچھ عناصر غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور عدالتوں پر دشنام طرازی کرتے ہیں، جو قابل مذمت ہے۔‘‘
عدالت پر بے جا تنقید
جسٹس وجیہہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں ہی عدالتوں پر تنقید کررہی ہے، جس کا یہ مطلب ہے کہ عدالتوں نے فیصلہ قانونی امور کو پیش نظر رکھ کردیا۔ ''یہ ملک میں غلط روایت پڑ رہی ہے کہ جس کے بھی خلاف فیصلہ آئے وہ سٹرکوں پر نکل آئے اور عدالتوں پر تنقید کرنا شروع کردے۔ عدالتوں نے گزشتہ کچھ برسوں میں فیصلے صرف قانونی نکات کو پیش نظر رکھ کر کئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے اس رویئے سے انارکی پھیل سکتی ہے۔‘‘