1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیار جو مجھے چھ ماہ کی حاملہ نرس پہ آیا

27 نومبر 2020

پچھلے دنوں ایک سرکاری ہسپتال میں جانا ہوا، وجہ یہی تھی کہ کورونا ٹیسٹ کروانا ہے۔ وہاں کام کرنے والے سٹاف میں، جو نرس سیمپل لے رہی تھیں، وہ چھ ماہ سے حاملہ تھیں لیکن اپنی ڈیوٹی بڑے اطمینان سے نبھا رہی تھیں۔

https://p.dw.com/p/3lufy
Shumaila Hussain | DW Urdu Blogerin
تصویر: Privat

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کی بیوی، بہن، بیٹی یا ماں حاملہ ہو اور آپ اسے کسی بھی ایسی جگہ بھیج دیں، جہاں کورونا لگنے کے چانسز سو فی صد تک ہوں؟ پھر ان حالات میں کہ مسلسل کئی ڈاکٹر اور نرسز اس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں بھی جاتے رہے ہوں؟

مجھے ان خاتون پر بے اختیار پیار آ گیا، میں نے اس کا اظہار بھی کر دیا اور وہ شرمائی سی ہنسی ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔

آپ خود اپنے جاننے والوں سے روز یہ سنتے ہوں گے کہ کورونا وغیرہ کچھ نہیں ہے، بس حکومت عالمی طاقتوں سے فنڈ لینا چاہتی ہے، ڈاکٹر جان بوجھ کے دوسری بیماری والے مریضوں کو بھی ٹیکہ لگا کر مار رہے ہیں اور کورونا  کے سر ڈال رہے ہیں۔

یہ تو اکثر سننے میں آتا ہے، ''ستر سال کے والد صاحب ٹھیک ٹھاک ان کے پاس لے کر ہم لوگ آئے تھے، بس پہلے چھوٹے ہسپتال والوں نے کہا کہ ان کے بس کا کام نہیں ہے، شہر لے جائیں، ذرا سی دیر کیا ہوئی ان ڈاکٹروں کی بےپروائی سے ابا جی اللہ کو پیارے ہو گئے۔‘‘ یا پھر یہ کہ''بیٹا ون ویلنگ کر رہا تھا، گرا، ہسپتال لے کر گئے، ڈاکٹر بچا ہی نہیں پائے، ان کی غفلت کی وجہ س مر گیا۔‘‘

ایسی باتوں پر کبھی آپ یقین کرتے ہوں گے،کبھی مشکوک ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے ہوں گے اور کبھی صرف سن کر آگے بڑھ جاتے ہوں گے۔ پنجابی میں کہتے ہیں 'راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘ یعنی جس کا واسطہ اس صورتِ حال سے پڑتا ہے، اسے ہی سمجھ آتی ہے۔

میری سہیلیوں میں تین چار ڈاکٹر ہیں۔ میں نے ان سے کئی بار پوچھا کہ تم لوگ اتنے غافل کیوں ہوتے ہو کہ مریض مر جاتا ہے؟ وہ کون سا ٹیکہ ہے، جو تم لگاتے ہو اور بندے کو مار دیتے ہو؟ کیوں کورونا کے مریضوں کی تعداد تم لوگ بڑھا چڑھا کر بتاتے ہو؟

وہ بے چاریاں یہی کہتی ہیں کہ جب آپ لوگ بے احتیاطی سے ڈرائیو کرتے ہیں، گھریلو حادثات کی اصل وجہ نہیں بتاتے، الٹا سیدھا کھا کے پیٹ خراب کرتے ہیں، بچوں کے ہاتھ میں گاڑیاں تھما دیتے ہیں، وبائی ایس اوپیز کا خیال نہیں کرتے، بیماری کو سنجیدہ نہیں لیتے، بیمار ہونے کی صورت میں عطائی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، مرض بگاڑ کر بستر مرگ پر پڑے مریض کو ہمارے پاس لاتے ہیں، تو ہم کیسے مُردوں میں جان ڈال سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان: پرائیویٹ ڈاکٹر مسیحا ہیں یا ڈرگ ڈیلر؟

ہم ایسے مسیحا بھی نہیں کہ مرتے ہوئے لوگوں کو زندہ کرنے کا اعجاز رکھتے ہوں۔ رہی بات کورونا والے انجیکشن سے مریضوں کو مارنے والی سازش کی، تو ہم کم از کم اپنے ساتھیوں کو تو یوں بے بسی کے ساتھ موت کے منہ میں جاتا ہوا نہ دیکھ رہے ہوتے، کیا انہیں بھی ہم انجیکشن سے مارتے ہیں؟ ہم تو انہیں بھی نہیں بچا پاتے۔

اس طرح کے الزامات لگاتے وقت معلوم نہیں ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ڈاکٹر ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں، ہم میں سے ہی وہ آگے بڑھے اور ہم سے سو گنا زیادہ پڑھنے اور محنت کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر کے عہدے پر بیٹھے ہیں۔

ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ مریض کی موت کی صورت میں ورثاء ڈاکٹروں پر الزام لگانے کے علاوہ تشدد پر بھی اتر آتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ملک، جنہیں ہم تہذیب یافتہ سمجھتے ہیں وہاں بھی صحت سے متعلقہ شعبوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔

سن دو ہزار سولہ کی ایک ریسرچ  کے مطابق آسٹریلیا میں تینتیس سو ایسے واقعات رپورٹ ہوئے اور سن دو ہزار بارہ سے سن دو ہزار چودہ کے درمیان گیارہ دیگر یورپی ممالک کے ریکارڈ پر بیالیس سو طبی عملے کے افراد ایسے واقعات کا شکار ہوئے۔ دیکھ کر ایک خود غرض قسم کی فیلنگ بھی آئی کہ چلو کہیں تو ہم اکیلے نہیں اس جنگلی پن میں۔

پولیو ٹیموں پر حملے کے واقعات تو آپ نے سن ہی رکھے ہوں گے، ایسے واقعات میں جو مر گیا وہ تو گیا لیکن جو بے چارہ زندہ رہ جاتا ہے، اس کے دماغ پر کیا گزرتی ہو گی، یہ بھی کبھی سوچیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ہسپتالوں میں طبی عملے کی حفاظت کے لیے آس پاس کوئی سکیورٹی بھی نہیں ہوتی۔ ایسے کسی بھی اچانک حملے اور مار پیٹ کے وقت ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں خاموش رہ کر یا چھپ کے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔

اس صورتِ حال کا سامنا زیادہ تر جونیئر ڈاکٹروں کو ہوتا ہے کیونکہ ایمرجنسی سے لے کر جنرل وارڈ تک عموماً وہی ڈیوٹی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ شریف لوگ قانونی پیچیدگیوں میں بھی نہیں پڑتے کہ ان کا وقت اور پیسہ ضائع ہوتا ہے، حاصل وصول بھی کچھ نہیں ہو گا، یہ بھی انہیں پتہ ہے۔

آپ بڑے شہروں کو چھوڑ کر کسی بھی سرکاری ہسپتال چلے جائیں، اکثر شعبوں میں مشینری کی بدترین صورت حال کے پیش نظر مریضوں کو مہنگے داموں نجی ہسپتالوں سے ضرروی ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔ کبھی تو میجر قسم کی سرجری کے لیے بھی انہیں نجی ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہ ہر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں قصور موقعے پر موجود ڈاکٹروں کا ہے کہ وہ ہسپتال میں بنیادی سہولتیں بھی مہیا نہیں کر پا رہے اور وہ بس چڑھ دوڑتے ہیں انہی پر۔

یقین کریں اصل معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کو ملنے والے فنڈ کا حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو اپنی تنخواہیں جاری کروانے کے لیے سو سو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اسی طرح مشین خرابی رپورٹ انتظامیہ تک اگر پہنچ جائے تو اس کے ٹھیک ہونے کے مراحل سے گزر تے گزرتے مہینوں لگ جاتے ہیں۔ اس دوران مریضوں کا سارا غصہ آن ڈیوٹی میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف پر نکلتا ہے۔

آپ بس اسی نرس کا سوچیں، جو چھ ماہ کی حاملہ ہے اور کورونا سے بے پروا اپنی ڈیوٹی کیے جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کب تک ایسے کام کرتے رہیں گے؟ کیا ان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے یا بس تنخواہ کے عوض یہ قربان ہوتے رہیں گے؟

کوئی ڈیوٹی پہ مر گیا تو اسے شہید کہہ کر آخرت میں اجر کی بشارت دینا اب ہمارا معمول ہے، سوال اپنی جگہ ہے کہ درس گاہیں، شفاخانے اور دفاتر کام کرنے کی جگہیں ہیں یا جنگ کا میدان؟

آپ صرف ایک کام کریں، ڈاکٹروں کی غفلت سے مرنے کی بجائے اپنی ذمہ داری پہ مر جایا کریں، قریبی لوگوں کو بھی اس پہ قائل کریں، نرسوں ڈاکٹروں کی زندگی یقین کیجے بہت آسان ہو جائے گی۔