1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملوں کے سائے میں جی ٹوئنی کا اجلاس

عابد حسین14 نومبر 2015

جی ٹوئنٹی کا سربراہ اجلاس کل اتوار کے روز ایسے ماحول میں شروع ہو رہا ہے جب پیرس حملوں میں 130 کے قریب افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اِس سربراہ اجلاس کی میزبانی ترکی کے مقام انطالیہ کو تفویض کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H5j4
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقتصادیات کے حامل ملکوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کے سربراہان کی میٹنگ کل اتوار کے روز ترکی کے بحیرہ روم کے ساحلی و سیاحتی مقام انطالیہ میں شروع ہو رہی ہے۔ اِس سربراہ اجلاس میں امریکا، چین، جاپان، روس، کینیڈا، آسٹریلیا اور برازیل کے سربراہوں کی شرکت یقینی بتائی گئی ہے۔ جمعے کی شام کیے گئے پیرس حملوں کے تناظر میں فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ کی شرکت کے حوالے سے ابھی کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ترکی نے پیرس پر ہونے والے خود کش اور مسلح حملوں کی بھرپور مذمت کی ہے۔ ترک صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب اور عوام کے نام تعزیتی پیغام روانہ کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق جی ٹوئنٹی سمٹ میں یقینی طور پر پیرس حملوں کے حوالے سے رہنما یقینی طور پر بات کریں گے۔ اِس کے علاوہ وہ شام کے حالات کے ساتھ ساتھ گلوبل سکیورٹی کی صورت حال کو بھی اہم موضوعات میں شامل کر سکتے ہیں۔ یہ سربراہ کانفرنس اتوار اور پیر کے ایام پر جاری رہے گی۔

Türkei Küste bei Antalya G20 Gipfel
انطالیہ کو انتہائی دلفریب ساحلی مقام قرار دیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/ZUMA Press

ترک وزیراعظم احمد داؤد اولُو کا کہنا ہے کہ پیرس حملے فرانسیسی عوام کے خلاف نہیں بلکہ یہ ساری انسانیت، جمہوریت، آزادی اور آفاقی اقدار کے خلاف تھے۔ ترک وزیراعظم نے مزید کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی اِس کی کوئی قومیت ہے۔ اولو نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی بنیادی اقدار کی نمائندہ نہیں ہوتی کیوں کہ دہشت گردی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔ ترک وزیراعظم نے فرانس کے ساتھ ساتھ تمام دوسرے ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون کی پیش کش کی ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ شام کی جنگ میں شریک ہونے والے غیر ملکی جہادیوں کی راہ کو روکنے کے لیے ترکی نے خاصی دیر سے ردعمل شروع کیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ملک کو اِس تناظر میں تنقید کا سامنا ہے۔ غیر ملکی جہادی ماضی میں ترکی کے راستے شام میں داخل ہوتے رہے ہیں اور ناقدین کا خیال ہے کہ ترکی کو اِن کا راستہ پہلے دن سے روکنا چاہیے تھا۔ یہ جہادی شام پہنچ کر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور دوسرے جہادی گروپوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ ترکی اور شام کے درمیان تقریباً نو سو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔