پیرس کانفرنس کے بعد لیبیا کےخلاف فوجی کارروائی ہو سکتی ہے، فرانسیسی سفیر
19 مارچ 2011فرانسیسی سفیرGerard Araud نے کہا کہ پیرس میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ عرب ممالک کے اعلیٰ وفود بھی شریک ہو رہے ہیں اور یہ لیبیا کو ’آخری پیغام‘ دینے کا اچھا موقع ہو گا۔
فرانسیسی سفیر کے مطابق : ’’ہم اس آپریشن اور سفارتی سطح پر اس معاملے میں شریک اہم ممالک کا اجلاس منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں لیبیا کے لیے ایک آخری پیغام کا یہ اچھا موقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس پہلے ہی فوری فائر بندی کا الٹی میٹم دے چکے ہیں۔ ہم نے اس کے لیے شرائط بھی بتا دی ہیں۔ میرے خیال ہے کہ اس سمٹ کے چند گھنٹوں بعد ہم فوجی کارروائی کا آغاز کر سکتے ہیں۔‘‘
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن ہفتے کے روز عرب ممالک کے رہنماؤں کے ہمراہ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی سے پیرس میں ملاقات کر رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کی دعوت پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی اس اجلاس میں خصوصی طور پر شریک ہو رہی ہیں۔ اجلاس میں اسپن، اٹلی، پرتگال اور بلیجیئم کے وزرائے اعظم اور یورپی یونین کے صدر ہرمن فان رومپوئے اور خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن بھی میں شریک ہو رہی ہیں۔
Gerard Araud نے کہا کہ اس ملاقات میں عرب ممالک کی شرکت اہم ہے، ’’ہمیں عرب دنیا میں نیٹو کے امیج کا خیال رکھنا ہے‘‘۔ ان کے بقول متحدہ عرب امارات اور قطر نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے جہاز اور پائلٹ مہیا کرنے کو تیار ہیں۔’’یہ مغربی ممالک کا آپریشن نہیں ہو گا، یہ ایک بین الاقوامی کارروائی ہوگی، جو عرب لیگ کی درخواست پر کی جا رہی ہے۔‘‘
دوسری جانب جرمنی نے لیبیا کی اس دعوت کو مسترد کر دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ برلن لیبیا میں سیز فائر کے جائزے کے لیے اپنے مبصر تعینات کرے۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ اس مقصد کے لیے مبصروں کی تعیناتی کا اختیار صرف اقوام متحدہ کو ہے۔
جمعے کے روز طرابلس میں لیبیا کے نائب وزیر خارجہ خالد قائم نے کہا تھا کہ لیبیا کی فورسز نے باغیوں کے خلاف تمام تر کارروائیوں روک دی ہیں اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے چین، جرمنی، مالٹا اور ترکی اپنے مبصر لیبیا بھیجیں۔
واضح رہے کہ لیبیا کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کے لیے کی جانے والی رائے شماری میں جرمنی شریک نہیں ہوا تھا۔ جرمنی اس وقت سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن ملک ہے۔
اس سے قبل جرمن حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ جرمنی لیبیا کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہو گا۔ تاہم جرمن حکام کے مطابق اگر لیبیا کے خلاف بین الاقوامی فوجی کارروائی عمل میں آئی، تو جرمنی اس میں بالواسطہ طور پر شریک ہو گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق