پیسیفک کے تارکین وطن، چھان بین کے لیے ٹرمپ اجازت کے منتظر
27 فروری 2017پیر کے روز ایک اعلیٰ آسٹریلوی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکی حکام مانوس اور ناؤرو کے جزائر پر موجود ساڑھے بارہ سو تارکین وطن کو ملک میں بسانے سے قبل ان کی جانچ پڑتال اب تک شروع نہیں کر پائے ہیں، کیوں کہ انہیں اب تک اس سلسلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اجازت نہیں ملی ہے۔
امریکا اور آسٹریلیا کی حکومتوں کے درمیان سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ان تارکین وطن کو امریکا میں بسایا جانا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ’بے وقوفانہ‘ قرار دیا تھا، تاہم بادل نخواستہ اسے تسلیم بھی کیا تھا۔
کینبرا حکام نے غیرقانونی طور پر آسٹریلیا میں داخلے کی کوشش کرنے والے ان مہاجرین کو سمندر ہی میں پکڑ کر پاپووآ نیوگنی کے جزائر مانوس اور ناؤرو میں قائم حراستی مراکز پہنچا دیا تھا۔ پاپووآ نیوگنی کی حکومت آسٹریلوی امداد سے یہ مراکز چلا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق سری لنکا، افغانستان اور ایران سے ہے۔ تاہم ان مراکز پر معیار زندگی کے اعتبار سے دگرگوں حالت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آسٹریلیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔
آسٹریلیا کے محکمہء مہاجرت اور سرحدی تحفظ کے سیکرٹری مائیک پیزُولو نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کے اہلکار ان تارکین وطن کی جلد از جلد امریکا منتقلی سے قبل جانچ کے عمل کو روکے ہوئے ہیں اور اس کے لیے انہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اجازت درکار ہے۔
پیزُولو نے سینیٹ کی قانونی اور دستوری امور کی کمیٹی کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ یہ عمل اگلے چند ماہ میں شروع ہو جائے گا۔ سینیٹ کی اس کمیٹی کے ایک رکن نِک میکِم نے ٹرمپ کو ’پاگل‘ قرار دیتے ہوئے پیزُولو سے سوال کیا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس بے یقینی کے بعد وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل اگلے کچھ عرصے میں شروع ہو جائے گا؟
پیزُولو نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی اور محکمہء خارجہ کے اہلکاروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات پر اعتبار ہے۔
پیزُولو کا مزید کہنا تھا کہ امریکی محکمہء خارجہ کے کچھ عہدیداروں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا یہ تارکین وطن حقیقی معنوں میں پناہ کے متلاشی ہیں یا نہیں، کچھ تارکین وطن سے بات چیت بھی کی ہے۔