1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پینسٹھ ملین مہاجرین کو جرمنی میں نہیں بسایا جا سکتا‘

عابد حسین
30 جولائی 2017

جرمنی کے پارلیمانی انتخابات کی مہم میں مہاجرین کا معاملہ پھر سے شدت کے ساتھ سر اٹھانے لگا ہے۔ الیکشن کے انعقاد میں اب دو ماہ سے کم کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2hOfT
Deutschland Oberbürgermeister von Tübingen Boris Palmer
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Schmidt

جرمن شہر ٹُیوبنگن کے پینتالیس سالہ میئر بورس پالمر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے پینسٹھ لاکھ تارکین وطن کو صرف جرمنی میں آباد نہیں کیا جا سکتا۔ پالمر کا تعلق جرمنی میں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعت گرینز پارٹی سے ہے۔

نئی ٹیکنالوجی: اب مہاجرین دوہری مراعات نہیں لے پائیں گے

’مہاجرین کو متبادل سفری دستاویزات کے ذریعے ملک بدر کیا جائے‘

کیا میرکل کی مہاجرین پالیسی ان کی شکست کا سبب بن سکتی ہے؟

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی جرمن زبان میں لکھی گئی کتاب Wir können nicht allen helfen میں کیا ہے۔ کتاب کے سرنامے کا ترجمہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے: ’’ہم ہر کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘ پالمر کی اس کتاب کا اجراء جرمنی میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تقریباً سات ہفتے قبل کیا گیا ہے۔ کتاب کی تقریبِ رونمائی جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہوئی۔

پالمر مہاجرین کے بحران پر فیس بک کے علاوہ ملکی ذرائع ابلاغ میں بھی اپنے خیالات کا اظہار مختلف انٹرویوز میں یا مضامین لکھ کر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جرمنی میں ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے اور تقسیم کا یہی عمل جرمن معاشرے میں بہت سے خاندانوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی گفتگو میں اس معاملے پر بحث کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Trump Merkel
میرکل کے نزدیک میں مہاجرین کی انتہائی حد سالانہ بنیادوں پر دو لاکھ خیال کی جاتی ہے۔تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber

جرمنی کی مرکزی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بھی واضح کر چکی ہے کہ یہ بحران اب سنگین ہو چکا ہے۔ اسی طرح جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی ایک چھوٹی حکومتی جماعت کرسچین سوشل یونین کے سربراہ اور باویریا صوبے کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زےہوفر بھی مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد کے تعین کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ زےہوفر کے مطابق لامحدود تعداد میں مہاجرین کی آمد سے معاشرہ تناؤ کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مہاجرین کی تعداد کو محدود کیا جائے تا کہ اُن کا مناسب سماجی انضمام ممکن ہو سکے۔

موجودہ مخلوط جرمن حکومت میں شامل بڑی پارٹی اور چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے متعدد رہنماؤں کے نزدیک ملک میں مہاجرین کی انتہائی حد سالانہ بنیادوں پر دو لاکھ خیال کی جاتی ہے۔ میرکل کی سیاسی پارٹی کے ایک اہم رکن تھوماس اشٹروئبل کا خیال ہے کہ رواں برس کی انتخابی مہم میں مہاجرین کے مسئلے کے باعث عوامی منظر نامہ کشیدہ دکھائی دیتا ہے۔