پیچھا کرتی نظریں! کہاں تھے اور کہاں پر آ گرے
8 نومبر 2020جب سے ہوش سنبھالا تو ہر صبح اسکول جاتے ہوئے سیکٹر ایف سکس کی گلیوں میں غیر ملکی خواتین کو عام شہریوں کی طرح بلا خوف و خطر ٹریک سوٹ پہنے چہل قدمی، ورزش اور جاگنگ کرتے دیکھا۔
مختلف اوقات میں بازاروں میں شاپنگ کرتے اور ہستے مسکراتے دیکھا اور یہی نہیں بلکہ ان غیر ملکیوں کو مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھِرے اِس چھوٹے سے پرسکون شہر کے گن گاتے بھی دیکھا۔
شہر کے دیگر رہائشوں سے لے کر دور دراز علاقوں سے یہاں ملازمت کے لیے آئے ڈرائیورز اور گھروں کے چوکیداروں کو بھی کبھی آنکھ اٹھا کر اِن لوگوں کو عجیب مخلوق سمجھ کر گھورتے نہ دیکھا بلکہ کوئی راستہ بھٹک جائے تو اُس کی مدد کرتے اور اپنے اچھے رویے پر داد وصول کرتے۔
کہنے والے کہتے تھے کہ اسلام آباد ایک منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا شہر ہے اور ملک بھر کے شہروں کے ماحول اور لوگوں کے رویوں کا اندازہ اس شہر کو دیکھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ ازراہِ مذاق دوسرے شہروں کے دوست ہمیں 'پپو یا برگر بچے‘ کہتے آئے ہیں۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ بات شہر کی کم آبادی اور صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے ہے مگر ایسا نہیں تھا۔
کچھ سہیلیوں کا گرمیوں کی چھٹیوں میں دیگر شہروں میں وقت گزرتا تھا خاص طور پر لاہور میں، وہ جب واپس آتیں تو زندہ دلان شہر لاہور کے کھانوں سے لے کر بسنت کے رنگوں تک کے قصے سناتیں۔ لیکن ایک شکوہ ضرور کرتیں کہ اگر کوئی خاتون گاڑی چلا رہی ہو یا بازار میں شاپنگ کر رہی ہو تو منچلے لڑکوں کی جانب سے آوازیں کسنا اور نمبر پھینک کر جانا معمول کی بات ہے، کئی نوجوان تو گھر تک پیچھا بھی کرتے۔ تب سمجھ آیا دوست اسلام آباد کا دیگر شہروں سے موازنہ کرنا کیوں پسند نہیں کرتے تھے۔
پھر وقت بدلہ اور اسلام آباد کا ماحول بھی!
اب وہی ہلڑ بازی چاند راتوں پر یا یوم آزادی کی شاموں پر اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ اور دیگر علاقوں میں نظر آنے لگی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سمیت زیادہ تر لڑکیوں کو اِن خاص تہواروں کہ موقع پر گھر والوں کی جانب سے گھر سے نہ نکلنے کی تلقین کی جانے لگی ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ آپ جینز شرٹ میں ملبوس ہوں یا چادر میں، نوجوانوں سے لے کر آپ کے والد کی عمر تک کے مرد اپنی نظروں سے آپ کو اپنے وجود پر سوال اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں گھورنے کو کوئی معیوب بات نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس کے خلاف قوانین نہیں ہیں لہذا ہر گزرتی لڑکی، کم عمر بچی یا برقعہ پہنے ہاتھ میں دو بچے تھامے خاتون ہی کیوں نہ ہوں، اپنی آنکھوں سے اس کا ایکس رے کرنے کو یہ حضرات اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مزید کیا کچھ ہوتا ہے اس کو فی الحال رہنے دیتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دوں کہ اس سب میں اُن مرد حضرات کی بات نہیں کی جا رہی، جو اپنی اچھی تربیت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے افراد کی شرح بہت کم رہ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
دانشور سے نہیں، ٹِک ٹاک کی اہمیت کا اشرافیہ سے پوچھیے
اب آخر میں اِس تحریر کو لکھنے کے مقصد پہ آ جاتے ہیں۔ ہفتے کی صبح مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کے لیے جانے والی تین غیر ملکی لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے کا شرمناک واقعہ پیش آیا، پولیس نے اطلاع ملتے ہی دو ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ملکی خواتین نے اس قسم کی ہرا سگی پر ہار مان لی ہے اور حکومت سے تحفظ مانگنے کا مطالبہ کرنا بھی بہت کم کر دیا ہے۔ جو ساتھی خواتین، عورت مارچ کے موقع پر مطالبات کرتی ہیں اُن کی حوصلہ شکنی، جس انداز میں کی جاتی ہے، وہ ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔
کچھ حلقے میڈیا سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک کا مثبت چہرہ دنیا کو نہیں دکھایا جاتا لیکن آپ خود فیصلہ کیجیے کہ میڈیا مثبت تصویر پیش کرے اور سیاحوں کو اُس سے متضاد رویے کا سامنا کرنا پڑے تو کیا یہ تضاد نہ ہو گا؟
وزیراعظم پاکستان ملک میں سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں اور اس سلسلے میں چند قابلِ ستائش اقدامات بھی ہوئے لیکن ہمیں طویل سفر طے کرنا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ پبلک مقامات کو خواتین کے لیے محفوظ بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر ایسے مرد حضرات، جن کی وجہ سے آج خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا ہے، اُن کے رویے دُرست کرنے اور ان کی اِس ذہنی کیفیت کی وجوہات جاننے کے لیے ماہرین سے ریسرچ کروائی جائے تاکہ آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جن کو علاج کی ضرورت ہو اُن کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ یہ معاملہ دو لوگوں کو گرفتار کر لینے سے ختم نہیں ہو جائے گا اِس کی تہہ تک پہنچنا ہو گا۔
پاکستان کے عوام ملک میں آئے مہمانوں کے ساتھ خوش اخلاقی میں اپنی مثال آپ تھے اور کسی حد تک اب بھی ہیں لیکن 'خواتین کے لیے محفوظ پاکستان‘ کا سہرا واپس کیسے اپنے سر سجایا جائے؟
اس کا فیصلہ سب سے بڑھ کر عوام کو اپنے رویے تبدیل کر کے اور حکومت کو اہم اقدامات سے کرنا ہے۔