پیگاسس اور کشمیر، ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
22 اگست 2021کئی ممالک میں تو اس پر تفتیش بھی شروع کی گئی ہے۔ مگر سری نگر میں بیٹھ کر ہمیں لگتا ہے کہ آخر اس میں کون سی چیز نئی ہے؟ آخر یہ شور کیوں برپا ہے؟ سن 2016ء میں پورا کشمیر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی حالت میں تھا۔
میرے قصبے سوپور میں بھی حالات انتہائی خراب تھے۔ ایسی صورت حال میں میں نے جب دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے والدین کی خبر و خیریت معلوم کرنے کے لیے سوپور فون کیا، تو والد صاحب نے بس خیریت کی اطلاع دے کر فون رکھ دیا۔
میں نے دوبارہ فون کرکے علاقے کی صورتحال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، تو انہوں نے دوبارہ فون کاٹ دیا۔ بعد میں انہوں نے بلمشافہ بتایا، ”تمہیں پتہ نہیں کہ کشمیر میں فون ریکارڈ ہوتے ہیں اور سیکورٹی اہلکار ان کو سنتے رہتے ہیں۔"
سری نگر کے پاس کسی پہاڑی سے شہر کا نظارہ مسحور کن تو ہوتا ہے، مگر جا بجا بستیوں میں ایستادہ اینٹینا نظر آتے ہیں۔ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں کئی برسوں سے مختلف خفیہ ادارے ہمہ وقت ٹیلی فون یا انٹرنیٹ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
سن2011 میں فرنٹ لائن جریدہ میں صحافی پروین سوامی نے لکھا تھا کہ خفیہ اداروں کو سری نگر میں اعلیٰ تکنیکی آلات مہیا کیے گئے ہیں، جن سے وہ تمام تر قسم کے سیلولر و لینڈ لائن فون، ریڈیو فریکونسی اور انٹر نیٹ پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
مئی 2012ء میں جب بھارتی فوج کے سربراہ وی کے سنگھ، جو اب مرکزی وزیر ہیں کی سبکدوشی کے فوراً بعد نئے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ان کے قائم کردہ انتہائی خفیہ یونٹ ’ٹیکنیکل سروسز ڈویڑن‘ (ٹی ایس ڈی) کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک محکمانہ انکوائری کا حکم دیا، تو معلوم ہوا کہ یہ یونٹ نہ صرف کشمیر میں سیاستدانوں کو رقوم کی فراہمی کرتا تھا بلکہ فون کالز بھی ٹیپ کرتا تھا۔
اس یونٹ نے انتہائی جدید ٹیلی فون ریکارڈنگ مشینیں درآمد کیں۔ تفتیش کے بعد ان میں سے چند مشینوں کو ناکارہ بنا دیا گیا اور ان میں سے ایک اتنی حساس تھی، کہ اس کو دریا برد کرکے ضائع کر دیا گیا۔
برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ اپنی کتاب دی میڈوز میں سری نگر میں موجود ایک خفیہ محکمہ کے اہلکار کے حوالے سے لکھتے ہیں، ”ہم نے نوجوان جوڑوں کی تنہائی میں کی گئی باتیں ریکارڈ کیں اور پھر ان کو بلیک میل کیا۔ ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا تھا۔ اس عمل کی کوئی سرحدیں نہیں تھیں۔ احساس جرم تب ہوا، جب ہم اس گیم سے باہر آچکے تھے اور ان کو یاد کرکے اب نفسیاتی گرداب میں پھنس گئے ہیں۔‘‘
اس لیے میرے والد کا فون پر بات کرنے سے احتیاط برتنا غیر ضرور ی نہیں تھا۔ لینڈ لائن ٹیپنگ، موبائل بگنگ، سائبر واچ، ڈرونز، ہر کونے پر سی سی ٹی وی کے ذریعے نگرانی اور جاسوسی اور مخبروں کی حوصلہ افزائی کشمیر کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں نگرانی اور بھی آسان ہوگئی ہے۔ یہ نگرانی صرف آزادی کی حامی مزاحمتی قیادت یا ان کے کارکنوں تک محدود نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق سن 2014 تک کشمیر میں 10 لاکھ فون ٹیپ کیے جا رہے تھے اور اس تعداد میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔
بھارت میں تو قانونی طور پر فون ٹیپ کرنے کے لیے سیکرٹری داخلہ کی اجازت لازمی ہے۔ نگرانی کی مدت دو ماہ طے کی گئی ہے، جسے 6 ماہ سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ ہیکنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔
موبائل میں نقب زنی کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے بھارتی وزارت داخلہ نے 20 دسمبر سن 2018 کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت نو خفیہ ایجنسیوں اور دہلی پولیس کو انٹرنیٹ وموبائل میں جاسوسی کی قانونی اجازت مل گئی تھی۔ مگر اس قانون کی کشمیر میں دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔
نگرانی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے سال ہی جموں کشمیر پولیس نے سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے رضاکاروں کو پولیس کی ’آنکھیں اور کان‘ بننے کے لیے بھرتی کیا۔ ان کا کام سوشل میڈیا پر ’ملک مخالف‘ اور ’بنیاد پرستی‘ کی پوسٹوں کو پولیس کی نظر میں لانا ہے، تاکہ پولیس ان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکے اور وقفے وقفے سے سائبر پولیس کشمیری سوشل میڈیا صارفین پر کریک ڈاؤن اور ان کی شناخت کرتے ہیں جو باقاعدگی سے کشمیر اور اس سے متعلق خبروں کو اپ ڈیٹ کرتے تھے۔
اگرچہ پیگاسس کے ذریعے نگرانی کا مقصد لوگوں کو بتائے بغیر ان کی جاسوسی کرنا ہے لیکن کشمیر میں جو نگرانی کا آلہ کام کرتا ہے، اس کا مقصد نگرانی کے علاوہ عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر کمزور کرنا بھی ہے، تاکہ کوئی آواز بلند کرنے سے قبل ہی ان کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
قومی سلامتی کے نام پر عوام کی پرائیوسی کو ختم کرنے اور ان کی نجی گفتگو کو ٹیپ کرنا اب زندگی کا معمول بن چکا ہے۔ اس لیے جب دہلی میں پیگاسس پر ہنگامہ برپا ہوا تو کشمیریوں کا کہنا تھا کہ ’دیکھو خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘۔