چائلڈ لیبر آٹھ سال میں ختم کر دی جائے، آئی ایل او
15 نومبر 2017عالمی ادارہ محنت (ILO) کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائڈر نے منگل 14 نومبر کو خبردار کیا کہ دنیا بھر میں ہر دس میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کا شکار ہے اور ان میں قریب نصف بچے خطرناک کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کی 28 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے نصف کوبالٹ نامی دھات کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ دھات بچے ہی کانوں سے نکالتے ہیں۔
ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رائڈر نے یہ بات تسلیم کی کہ 1990ء کی دہائی سے اب تک ایسے بچوں کی تعداد میں 100 ملین کی کمی واقع ہو چکی ہے جو چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تبدیلی کی اس شرح میں خاص طور پر حالیہ برسوں کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔ رائڈر کے مطابق، ’’ہم یہ پیشگوئی تو نہیں کر سکتے کہ روزگار کی منڈی مستقبل میں کیسے تبدیل ہو گی، لیکن ہمیں ایک چیز معلوم ہے: ہم مزید چائلڈ لیبر نہیں چاہتے اور نہ ہی جدید غلامی۔‘‘
عالمی ادارہ محنت کی طرف سے جاری کردہ تازہ اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں کم عمر ورکرز کی تعداد 152 ملین ہے جبکہ ان میں 25 ملین بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ منگل کے روز ارجنٹائن میں اس نوعیت کی ہونے والی چوتھی کانفرنس میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا ہدف 2025ء مقرر کیا گیا۔
آئی ایل اور کے سربراہ گائے رائڈر کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کی 28 بڑی کمپنیوں میں سے قریب نصف کوبالٹ نامی دھات استعمال کر رہی ہیں۔ بیٹریوں میں استعمال ہونے والی یہ دھات افریقی ملک کانگو میں کم عمر بچے کان کنی کے ذریعے نکالتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مائیکروسافٹ، رینو اور چین کی ہووا وائے کمپنی بھی چائلڈ لیبر سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم کے مطابق سات برس تک کی عمر کے بچے کوبالٹ کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں اور صحت داؤ پر لگا رہے ہیں۔ الیکٹرک کاروں کی بیٹریوں، اسمارٹ فونز اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کوبالٹ کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔