دوسرا، دماغ کے فلسفی ہیں مگر دنیا کو ایک صوفی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ فلسفے کا ذائقہ ایسپرسو کافی جیسا ہوتا ہے۔ یہ جمشید اقبال کے قلم سے صادر ہوتا ہے تو کاجو کی برفی بن جاتا ہے۔
اس کے کچھ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ وہ اپنی بات کہتے ہیں تو کہنے کے لیے ہی کہتے ہیں۔ دل دُکھانے کے لیے نہیں کہتے۔ ان کے کہے میں بے وقت کی راگنیاں نہیں ہوتیں۔ ان کے جملوں میں اشتعال بھی نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بات کہی اور سامع پہلے ہی جھٹکے میں ہتھے سے اُکھڑ گیا۔ بات سے پہلے سگریٹ آفر کرتے ہیں، لائٹر نکال کے خود اپنے ہاتھوں سے سگریٹ سلگاتے ہیں۔ دیر تک دل پشوریاں کرتے ہیں اور دل میں اُترنے کے لیے مناسب راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ راستہ مل جائے تو جادہِ دل پر جوتوں سمیت یونہی بے دھڑک نہیں اُتر جاتے، دھیرے دھیرے سے قدم رکھتے ہیں کہ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ آبگینے سلامت رہ جاتے ہیں اور پانی بدل جاتا ہے، پانی نہ بھی بدلے تو رنگ تو بدل ہی جاتا ہے۔
استاد کی فکر محض کتابی نہیں ہے۔ ان کی فکر نصابی تجربات اور غیر نصابی مشاہدات کا امتزاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نقطہ نظر بدلنے سے پہلے وہ زاویہ نظر بدلنے پر زور دیتے ہیں۔ دل دماغ میں کھڑی ایک دیوار گراتے ہیں تو بے فکری سے آگے نہیں بڑھ جاتے۔ دوسری دیوار اٹھانے میں مدد بھی دیتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد مذہبی انتہاپسندی ہمارا قومی موضوع بن گیا ہے۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جس نے روایتی بیانیے کا جوابی بیانیہ لکھا ہے۔ ان کے لکھے اور کہے میں جوابی بیانیے کے سارے باب ملتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ وہ بیانیہ دراصل کیا ہے، جس کا یہ جوابی بیانیہ ہے۔ بیانیے کو سمجھے بغیر جوابی بیانیے مرتب کرنے والوں نے بھٹکے ہوؤں کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ اتنے گھبرا گئے کہ درست پتے پر پہنچنے کی مزید کوشش کرنے کی بجائے واپس وہیں پہنچ گئے، چلے تھے وہ جہاں سے۔
وحشتوں میں اضافہ کرنے والا مواد تب پیدا ہوتا ہے، جب لکھنے والے کو لگتا ہے کہ انسان کے پاس کُل ملا کر ایک کھوپڑی ہے اور اس میں دماغ ہے۔ بات تب ہوتی ہے، جب اسے احساس ہو کہ انسان کے پاس سینہ بھی ہے، جس میں ایک نادان سا دل دھڑکتا ہے۔ یہی بات ہے، جو بطور قاری میرے لیے استاد جمشید کو ہم عصر مصنفین سے ممتاز کرتی ہے۔
علم کی نہیں، اس معاشرے میں ہمدردی کی کمی ہے۔ ہمدردی کی لکیر اٹھ جاتی ہے تو مکالمے اور مناظرے کا فرق مٹ جاتا ہے۔ فکری روایات ایک ہمدرد صوفی کی درمندیوں سے جنم لینے والی کتاب ہے۔ یہ کتاب قدم بہ قدم ہونے والی فکری وارداتوں کی نشان دہی کرتی ہے۔
یہ بتاتی ہے کہ ہم کب لُٹے، کس نے لوٹا اور مزید لُٹنے کی کتنی گنجائش ہمارے مزاج میں موجود ہے؟ یہ بھی بتاتی ہے کہ جو منظر ہمیں در پیش ہے، اس کا پس منظر کیا ہے؟ یعنی اچھے رنگوں کو دیکھ کر اور اچھی آوازوں کو سن کر ہم کیوں سہم جاتے ہیں؟ حُسن سے گھبرا کر ہم تیزاب کیوں چھڑکتے ہیں؟
نفرت کا اظہار اونچے سُروں میں کیوں کرتے ہیں اور محبت کے اظہار میں مار کیوں کھا جاتے ہیں؟ ہم موت کیوں بانٹتے ہیں اور زندگی سے کیوں ڈرتے ہیں؟ ہماری جمالیات میں ایسا کیا موڑ آیا کہ بندوقیں اور تلواریں ہمارے لیے ڈیکوریشن پیس تک بن گئیں۔ سچائی، امن اور سلامتی سے ہمارے قومی مفاد کو خطرات کیوں لاحق ہو جاتے ہیں؟ مکالمے کی ثقافت ایف آئی آر کی زد میں کیوں آتی ہے اور مناظرے کی روایت کو نظام تحفظ کیوں دیتا ہے؟
پڑوس کے مکان میں جھانکا تانکی کرنے کی بجائے ہم گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے؟ یہ کتاب بتاتی ہے کہ علم اور اخلاق پر عقیدے کو اجارہ کیسے حاصل ہوا؟ مذہبی عقیدے اور سیاسی موقف کا فرق کب ختم ہوا۔ گناہ اور جرم کو ایک ہی پلڑے میں تولنے کی روایت کب شروع ہوئی۔
آخری تجزیے میں یوں کہہ لیجیے کہ یہ کتاب ہمیں فرسودہ عمارتوں کو سلیقے سے مسمار کرنے میں مدد دیتی ہے۔ عمارت گر جاتی ہے مگر آس پڑوس میں خوف و ہراس نہیں پھیلتا۔ ملبے کو کام میں لا کر نئے نقشے کے ساتھ پھر سے عمارت کیسے اٹھاتے ہیں، یہ بات بھی آپ کو یہ کتاب بتاتی ہے۔ پڑھیے، اس کے حاشیوں میں کہیں زندگی کا اسمِ اعظم چھُپا ہے۔