چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کے 75 سال
چارلی چپلن کی 1940ء کی اس فلم کا موضوع اس دور کے عالمی سیاسی حالات تھے۔ فلم بینوں نے ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی پذیرائی کی، نازی سوشلسٹوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ چارلی کا فن اب ایک ضخیم باتصویر کتاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
75 سال پہلے پریمیئر
چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ آج بھی جرمنی کے نازی سوشلسٹ دور کے پس منظر کے حوالے سے ایک اہم اور انتہائی مزاحیہ فلم تصور کی جاتی ہے۔ چارلی نے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہوئے انتہائی مؤثر انداز میں ہٹلر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا تھا۔
جانوروں کو کرتب سکھانے والا
چارلی چپلن کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے، جس میں چپلن کے کیریئر کی اہم ترین فلموں میں شمار ہونے والی ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کتاب میں چپلن کی نادر و نایاب تصاویر شامل کی گئی ہیں، مثلاً یہ تصویر فلم ’دی سرکس‘ سے لی گئی ہے۔
مزاحیہ اور المیہ کردار ساتھ ساتھ
چپلن کے فن کے کئی اسرار و رموز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی طرح اپنی ابتدائی دور کی اور بعد کی فلموں میں بھی اپنے کردار کے طربیہ اور المیہ پہلوؤں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیتے تھے۔ بے انتہا کامیابی سے ہمکنار ہونے والی فلم ’دی گولڈ رَش‘ میں بظاہر ایک شخص بھوک سے مر رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس فلم میں فلم بینوں کے لیے ہنسی کا بہت سامان موجود ہے۔
ایک عالمی فنکار
تازہ تازہ شائع ہونے والی کتاب ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ سے پتہ چلتا ہے کہ چارلی چپلن کی اُن فلموں کی تیاری کے دوران کتنی محنت کی گئی ہوتی تھی، جو بعد میں بہت آسانی کے ساتھ اور بے ساختہ بنی ہوئی لگتی تھیں۔ اس کتاب میں چپلن کی نجی زندگی پر بھی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تصویر میں چارلی چپلن اپنی ساتھی اداکارہ پاؤلیٹ گوڈارڈ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں، جس کے ساتھ بعد میں چپلن نے شادی کر لی۔
بیس ویں صدی کے با اثر ترین فنکاروں میں سے ایک
چارلی چپلن کو دنیا بھر میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلموں کے ساتھ ساتھ اُس کی تصاویر، کتابیں اور کارٹون بھی لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ چارلی چپلن کا کردار ’ٹریمپ‘ بیس ویں صدی کی ثقافتی تاریخ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔
امارت اور غربت
’ٹریمپ‘ یا ایک آوارہ اور آزاد منش انسان کا کردار شروع ہی سے چارلی چپلن کے پسندیدہ ترین فلمی کرداروں میں سے ایک تھا۔ چپلن نے ایک بار کہا تھا:’’ایک بات میں جانتا ہوں: کہ غربت نے مجھے کچھ سکھایا نہیں بلکہ اس کے برعکس اُس نے میرے تصورات کو توڑ مروڑ اور بگاڑ دیا اور میرے سامنے زندگی کا ایک غلط تصور پیش کیا۔‘‘ چپلن فلموں کے ذریعے ہرگز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے کہ غربت یا سادگی کوئی بہت اچھی چیز ہیں۔
خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک
چارلی چپلن نے اپنے کیریئر کا آغاز خاموش فلموں سے کیا تھا۔ اُس دور میں وہ بلاشبہ دنیا کے مشہور ترین فنکار تھے۔ بولتی فلموں کا دور اُن کے لیے مشکلات اور مسائل لے کر آیا۔ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ میں الفاظ اور آواز کا انتخاب بلاشبہ بہت عمدہ تھا لیکن زیادہ تر بولتی فلموں میں اُنہیں یہ کامایبی نہ مل سکی۔ یہ تصویر بعد میں تنقید کا نشانہ بننے والی فلم ’موسیو وَیردُو‘ کی شوٹنگ کے دوران اُتاری گئی۔
حسن کی تلاش میں
چپلن نے اکثر اس بات پر زور دیا کہ دراصل وہ ہمیشہ حسن کی تلاش میں رہے۔ اسی لیے اس نئی کتاب کے پبلشر نے اپنے دیپباچے کو بھی ’حسن کی تلاش میں‘ کا نام دیا ہے۔ ’ٹاشن‘ نامی جرمن اشاعتی ادارے نے یہ کتاب انگریزی زبان میں شائع کی ہے۔ اس کتاب کو 2015ء کی خوبصورت ترین فلمی کتاب قرار دیا جا رہا ہے۔