چاند کے قصے
چودھویں کے چاند کے حوالے سے دنیا کی قریب ہر تہذیب میں مختلف طرز کے قصے کہانیاں موجود ہیں۔ چاند ہزاروں برسوں سے انسانوں کی ثقافت اور فن کو متاثر کرتا آیا ہے۔ دیکھیے تصاویر میں
مجھے چاند پر لے چلو
27 جولائی کو ایک دوہرا کائناتی مظہر دیکھا گیا تھا، جہاں ایک طرف مریخ گزشتہ پندرہ برس میں زمین کے انتہائی قریبی مقام سے گزر رہا تھا، جب کہ ٹھیک اسی وقت چاند گرہن ’بلڈ مون‘ میں تھا۔ ایسے کم یاب مظاہر اربوں برسوں سے اس کائنات کا حصہ ہیں، مگر زمین والوں کو چاند سے زیادہ کسی نے متاثر نہیں کیا۔
مذہبی علامت اور ایسٹرولوجی
صدیوں تک انسان چاند کی پوجا کرتے رہے اور غیرمرئی قوتوں کے تصور کے ساتھ اپنی زندگیوں کو جہتیں دیتے تھے۔ کبھی کبھی وقت کو دنوں اور مہینوں کی بجائے چاند کے ذریعے سمجھا جاتا تھا۔ جرمن علاقے سیکسنی انہالٹ سے سن 1999 میں 37 سو سے 41 سو برس پرانا پیتل کا ایک ٹکڑا ملا تھا، جس پر آسمان کی تصویر، اُس وقت کی فلکیات اور روحانیت کے تصورات کا پتا دے رہی تھی۔
مطلب کیا ہے؟
تصویری فنون میں چاند مختلف نوع کے موضوعات کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، کبھی معصومیت اور کبھی خواتین کی جنسی رغبت۔ مگر دنیا بھر میں چاند کو رومانویت سے سب سے زیادہ جوڑا جاتا رہا ہے۔ فنکار چاند کو کسی جادوگر کی طرح پیش کرتے رہے ہیں۔ سن 1820 کا کیسپر ڈیوڈ فریڈرش کا یہ شاہ کار اس کا ثبوت ہے۔
شاعروں کا لازوال استعارہ
چاند ادب میں ایک غیرمعمولی کردار کا حامل رہا ہے۔ اسے شاعر مختلف استعارات میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ گوئٹے کی نظم ’چاند کے لیے‘ اس مظہر کی عکاس ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہے، ’جھاڑی اور وادی تو بھری ہوئی ہے۔ اٹی ہوئی ہے اک شعاع سے اور میری روح کی بھاری زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔
چاند کی ہُوک
چاند شاید الوؤں اور بھیڑیوں کو گیت گانے پر مجبور کرتا ہے، مگر انسان بھی اسے دیکھ کر ہُوک بھرتے رہے ہیں۔ ماتھیاس کلاؤڈیوس کا گیت ’دھیرے سے چاند ابھرا‘ یا ایلوِس پریسلے کا گیت ’نیلا‘ چاند اس کے اظہاریے ہیں۔
خوف بھی، عشق بھی
مارک ٹوائن نے ایک بار کہا تھا، ’’ہر کوئی چاند ہے، جس کی ایک جہت سیاہ ہے، جو وہ کسی کو نہیں دکھاتا۔‘‘ قدیم وقتوں سے انسانوں کے بھیڑیوں میں تبدیل ہو جانے جیسے قصے سنائے جاتے رہے ہیں۔ 1941ء میں ’وولف مین‘‘ نامی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔
صدی کا سب سے بڑا واقعہ
سن 1969 میں پہلی بار انسان چاند پر اترا تو لگتا یوں تھا کہ جیسے زمین کا یہ ذیلی سیارہ اپنے بہت سے موفوق الفطرت راز کھو دے گا۔ اچانک چاند کے قصے پڑھنے والا انسان اس سیارہ پر خود موجود تھا اور تصویریں کھینچ رہا تھا۔ سائنس نے اس سیارے کو فتح کر لیا تھا۔
نہ ختم ہونے والا جادو
انسان کے ہاتھوں فتح ہو جانے کے باوجود چاند کا سحر انسان ختم نہ کر سکا۔ آج بھی چاند دنیا بھر کے فنکاروں کو بالکل ویسے ہی متاثر کر رہا ہے، جیسا ماضی میں کرتا رہا۔