چترال میں کیلاش، اسماعیلی آبادی پر حملے کریں گے، پاکستانی طالبان
13 فروری 2014اس ویڈیو پیغام میں چترال میں ایسے حملوں کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان شدت پسندوں نے ملک کی سنی مسلم آبادی سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسے اس جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے۔ اسلام آباد سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق 50 منٹ دورانیے کی یہ ویڈیو پاکستانی طالبان کے میڈیا ونگ کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر دو فروری کو جاری کی گئی تھی۔
وادیء چترال میں ماضی میں اعتدال پسند اسماعیلی مسلمانوں اور کیلاش نسل کی قدیم قبائلی آبادی کے افراد کی اکثریت تھی۔ کیلاش باشندے عقیدے کے لحاظ سے کئی مختلف خداؤں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلی طور پر یونان کے اسکندر اعظم کی فوج میں شامل ان سپاہیوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو اسکندر اعظم کی برصغیر سے واپسی کے وقت چترال کے پہاڑی علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔
کیلاش باشندے صدیوں سے اپنی علیحدہ سماجی اور ثقافتی شناخت اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن زیادہ تر مسلمان آبادی والے پاکستان میں چترال کی آبادی میں کیلاش اور مسلمانوں کے اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے باشندوں کا تناسب گزشتہ چند عشروں کے دوران تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ وہاں پچھلی چند دہائیوں کے دوران مقامی آبادی کی نقل مکانی کی وجہ سے قدرے سخت عقیدے والے سنی مسلمان اکثریت میں ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اس وادی میں کیلاش طرز زندگی کو بھی طالبان کی عسکریت پسندی کی وجہ سے کئی طرح کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور اب تک اسی علاقے میں طالبان پاکستانی سکیورٹی فروسز پر کئی خونریز حملے بھی کر چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق پاکستانی طالبان کے چترال میں آئندہ حملوں کا اعلان کرتے ہوئے پون گھنٹے سے زائد دورانیے کی ویڈیو میں پس منظر سے سنائی دینے والی مردانہ آواز نے وادی کی کیلاش آبادی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یا تو مسلمان ہو جانا چاہیے یا پھر اپنی موت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چترال میں کیلاش نسل کے قدیم قبائلی باشندوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ صرف ساڑھے تین ہزار تک لگایا جاتا ہے۔
اس ویڈیو میں مزید کہا گیا ہے، ’’اللہ کا شکر ہے کہ کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ افراد اسلام قبول کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اس قبیلے کے لوگوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو ان قبائلی باشندوں کو ان کے محافظ مغربی ایجنٹوں کے ساتھ ہلاک کر دیا جائے گا۔‘‘
اس ویڈیو پیغام میں ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم، آغا خان فاؤنڈیشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ چترال میں کیلاش ثقافت کے تحفظ کے نام پر ’اسرائیل‘ جیسی ایک ریاست قائم کرتی جا رہی ہے اور یوں لوگوں کو اسلام سے دور کیا جا رہا ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کے اس پیغام میں یہ عہد کیا گیا ہے کہ ایسے تمام ارادے ناکام بنا دیے جائیں گے۔
آغا خان فاؤنڈیشن ایک ایسی فلاحی تنظیم ہے، جس کے سربراہ آغا خان ہیں، جو کہ اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا اور عالمگیر سطح پر ایک مسلمہ انسان دوست شخصیت ہیں۔ اس ویڈیو میں طالبان نے اس فاؤنڈیشن کا نام لے کر اس کی خاص طور پر مذمت کی ہے۔
طالبان کے اس نئے ویڈیو پیغام کے مطابق، ’’آغا خان فاؤنڈیشن 16 اسکول، 16 کالج اور ایسے کئی ہوسٹل چلا رہی ہے جہاں نوجوان مردوں اور عورتوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی برین واشنگ کر کے انہیں اسلام سے دور رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔‘‘