چمگادڑوں کے بارے میں حیران کن پوشیدہ حقائق
مہلک کورونا وائرس اور بیماریوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے چمگادڑوں کو انتہائی برا تصور کیا جانے لگا ہے۔ لیکن آموں اور کیلوں کی پولی نیشن سے لے کر مچھر کھانے تک، رات کی یہ دلچسپ مخلوق ماحولیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔
صرف غاروں کا مکین نہیں
آسٹریلوی جھاڑیوں سے لے کر میکسیکو کے ساحلوں تک چمگادڑیں درختوں، پہاڑی غاروں میں اور چھتوں سے لٹکی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ زمین پر سب سے زیادہ پھیلا ہوا دودھ پلانے والا جانور ہے اور براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ واحد دودھ پلانے والا جانور ہے، جو پرواز بھی کرتا ہے۔
پتے پر رہائش
ہینڈوراس میں پائی جانے والی سفید چمگادڑیں ہیلیکونیا پودے کے پتے کو ایسے کاٹتی ہیں کہ وہ ٹینٹ کی شکل میں کٹ کر نیچے گرتا ہے۔ چمگادڑوں کی 14 سو اقسام میں سے صرف پانچ کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ چار سے پانچ سینٹی میٹر کی یہ چمگادڑیں صرف انجیر پر گزارہ کرتی ہیں۔
خون کی تلاش
ایک طویل عرصے سے دنیا میں چمگادڑوں کو شیطانی مخلوق قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان کی صرف تین اقسام خون چوستی ہیں۔ یہ اپنے شکار کے بالوں کو ہٹاتی ہیں اور پھر تیز دانتوں سے خون تک راستہ تلاش کرتی ہیں۔ ان کا شکار عموماﹰ سوتے ہوئے جانور اور گھوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ انسانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بھی مشہور ہیں اور بیماریاں منتقل کر سکتی ہیں۔
چمگادڑ کی طرح اندھے؟
چمگادڑوں کی انتہائی چھوٹی آنکھوں اور بڑے کانوں کی بھی اہم وجوہات ہیں۔ زیادہ تر چمگادڑوں کی نگاہ بہت کم ہوتی ہے اور اندھیرے میں کھانا تلاش کرنے کے لیے یہ ریڈار جیسے نظام ’سونار‘ پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے گلے میں ’ہائی پچ‘ آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے یہ پیمائش کا کام لیتی ہیں۔ یہ آواز منعکس ہو کر واپس آتی ہے تو یہ انتہائی درست انداز میں اردگرد کی چیزوں تک کا فاصلہ ناپتی ہیں۔
چمگادڑوں کے بغیر ایووکیڈو، آم یا کیلے ناممکن
پولی نیشن کی وجہ سے چمگادڑوں کی ناقابل یقین حد تک ماحولیاتی اہمیت ہے۔ پانچ سو سے زائد پودوں کے پھولوں کی پولی نیشن کا انحصار ان پر ہے۔ ان میں، ایووکیڈو، آم، کیلا اور کيوڑے کے خاندان کے درخت شامل ہیں۔ ایکواڈور اور میکسیکو میں پائی جانے والی لمبی زبان والی چمگادڑیں یہ کام انتہائی مہارت سے سرانجام دیتی ہیں۔
بیماریوں کا گھر
چمگادڑیں قدرتی طور پر متعدد وائرس کی افزائش کے لیے بہترین ہیں۔ ان میں سارس، میرس، سارس کووِڈ ٹو اور ممکنہ طور پر ایبولا وائرس شامل ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں ان کا نایاب امیون سسٹم ان وائرس کو دیگر جانوروں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چمگادڑیں زیادہ جسمانی درجہ حرارت اور زیادہ اینٹی وائرل مادے کی وجہ سے ان مختلف اقسام کے وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔
چمگادڑوں کی طویل عمریں
چمگادڑیں ایک سال میں ایک ہی بچہ پیدا کرتی ہیں لیکن ان کی عمریں دیگر دودھ پلانے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ کئی قسم کی چمگادڑیں 30 سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ ابھی تک معلوم چمگادڑ کی عمر 41 برس ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ بوڑھی بھی نہیں ہوتیں۔ سائنسدانوں کی مطابق ان کی طویل عمر کا راز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بوڑھے ہونے والے سیلز کو خود ہی مرمت کر لیتی ہیں۔