اس کی سنہری کرنیں زمیں پر اتر کر، نہر کے پانی میں ڈبکیاں لگا رہی تھیں۔ نور کی کرنیں، جب پانی میں جھلملاتیں تو نہر کا گدلا پانی بھی سونا ہو جاتا۔
نہر کا پانی پچھم کی سمت بہتا چلا جا رہا تھا۔ جیسے ابھرتے سورج نے ستلج دریا سے گدلے پانی کی مشق بھر کر انڈیل دی ہو اور اب بہتے پانی کو پکڑنے کے لیے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہو۔
ہم عارف والا (ضلع پاک پتن) سے سلیمانکی ہیڈ ورکس کی طرف جا رہے تھے، جو انڈیا پاکستان سرحد کے قریب واقع ہے۔ امریکہ میں بسے انڈین نژاد چچا بھتیجا، ڈاکٹر آشوک دھاون اور نوین دھاون وہ راستہ دیکھنا چاہتے تھے، جس پر چل کر ان کے بزرگ سن سینتالس میں منڈی عارف والا (پاکستان) سے نکل کر فاضلکا (انڈیا) کی طرف گئے تھے۔
اس سے قبل وہ پاک پتن میں اپنے آبائی گھر، اپنے گلی کوچے، اپنی گلیاں ویڈیو پر دیکھ چکے تھے۔ پھر رحمانی ملکانہ، نورا دادو اور چک مہدی خان کی وہ بستیاں بھی دیکھیں، جہاں ان کے خاندان کے مختلف افراد جیون نیہیا کو دھکیلتے رہے۔
جب ہم سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پہنچے تو سورج آسمان پہ ذرا اونچا آ چکا تھا۔ سفید دودھیا کرنیں ستلج ندی میں نہا کر جب پلٹتیں تو پل سے گزرتے مسافروں کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔
سرحد کے پاس ستلج دریا بل کھاتا، لہراتا، اٹکھیلیاں کرتا بہتا چلا جاتا ہے۔ پہاڑوں سے تیز قدم اتر کر، میدانوں میں انگڑائیاں لیتا، جب سرحد پاس آتا ہے تو ذرا نٹ کھٹ اور چنچل سا ہو جاتا ہے۔ کبھی پاکستان میں داخل ہوتا ہے، پھر ناگ کی طرح ذرا سا بل کھا کر انڈیا پلٹ جاتا ہے۔ پھر دھیرے سے کمر لچکا کر، لہرا کر پاکستان کی دھرتی پہ بہنے لگتا ہے۔ ستلج ندی کے لیے کوئی سرحد نہیں ہے۔ سرحدیں تو ہم انسانوں نے اپنے لیے بنا رکھی ہیں۔
پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے
کوئی سرحد نا انہیں روکے
سرحدیں انسانوں کے لیے ہیں
سوچو، تم نے اور میں نے، کیا پایا، انساں ہو کر
جاوید اختر صاحب کے من میں یہ سوال ابھرا تھا۔ پھر گیت میں ڈھل کر ہر حساس دل میں اتر گیا۔
ستلج دریا پر سلیمانکی ہیڈورکس تعمیر کر کے تین نہریں نکالی گئی تھیں، جن کا افتتاح 26 اگست 1926 کو ہوا۔ بائیں کندھے سے فورڈواہ نہر اور ایسٹرن صادقیہ نہر۔ دائیں کندھے سے پاک پتن نہر۔ دریا کا پانی کھیت کھیت پہنچا اور بنجر بیابان زمینیں سونا اگلنے لگیں۔
پل کے پہلو میں، پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں پتھر کی ایک سو سالہ بوڑھی تختی نصب ہے، جس پر ان انجینئیرز کے نام درج ہیں، جن کی محنت اور لگن سے سلیمانکی ہیڈ ورکس کا کام مکمل ہوا۔ یہ بورڈ جیسے متحدہ ہندوستان کا عکاس ہو۔ اس پہ انگریز، ہندو، مسلمان اور سکھ انجینئیرز کے نام تراشے گئے ہیں۔ کل 32 انجینئرز کے نام لکھے گئے ہیں۔ 14 انگریز، 11ہندو، پانچ مسلمان اور دو سکھ پچھلی ایک صدی سے اس پتھر کی تختی پہ اکٹھے رہ رہے ہیں۔
یہاں ای آر فائے بھی ہیں اور ایس واکر بھی۔ لالہ اجودھیا ناتھ کھوسلا بھی اور لالہ چھجو رام گپتا بھی۔ خان فقیر محمد خان بھی ہیں اور بھائی رگھبیر سنگھ بھی یہیں موجود ہیں۔ ایسا تنوع اب پاکستان کے کسی بھی علاقے میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سوائے ہیڈ سلیمانکی پر نصب پتھر کی ایک بوڑھی تختی کے۔
پتھر کی یہ سل گونگی نہیں ہے۔ گئے دنوں کی کہانی سب راہ گیروں کو سنا رہی ہے۔ کان لگائیے اور اس کی سرگوشیاں سنیے!
سلیمانکی کے مقام پر دو سنگ میل بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جو ہمارے لیے اچھوتے بھی ہیں اور حیران کن بھی۔ ایک پہ لکھا ہے ''دہلی 424 کلومیٹر‘‘۔ یہ بتا رہا ہے کہ دیکھو اسی سڑک پر سیدھا یہاں سے دہلی چار سو چوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ساتھ لوہے کا ایک بورڈ ہے، جس پہ لکھا ہے، '' آگے راستہ بند ہے۔ یہ شارع عام نہیں ہے۔‘‘
پاس ہی ایک چوکی میں چاق و چوبند ایک جوان بندوق تانے کھڑا ہے۔ حویلی لکھا اور پاکپتن سے آتی سڑک اس بورڈ کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتی ہے اور سہم کر ایک دم دائیں طرف مڑ کر منچن آباد اور بہاول نگر کو نکل جاتی ہے۔
دوسرے سنگ میل پر انڈین شہروں کے نام اور فاصلے درج ہیں۔ فاضلکا تو نزدیک ہی ہے۔ صرف 20 کلومیٹر کی دوری ہے۔ اسکوٹر پہ بس بیس منٹ ہی میں پہنچا جا سکتا ہے۔ ابھور شہر 52 کلومیٹر اور بھٹنڈہ ایک سو تیرہ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ دلی، آگرہ، لکھنئو اور کلکتہ کے فاصلے بھی درج ہیں۔
کہنے کو تو یہ شہر دور نہیں لیکن ہم آپ یہ بارڈر پار نہیں کر سکتے۔ بھلے فاضلکا 20 منٹ میں اسکوٹر پہ پہنچا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی بیچ میں دہائیوں اور عمروں کے فاصلے ہیں۔ جن بزرگوں نے ہجرت کی تھی، ان کی آنکھیں اپنے گاؤں کی گلیاں ایک بار دیکھنے کو عمر بھر ترستی ترستی ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔ یہ فاصلے طے نا ہوئے۔ چند کلومیٹر کے فاصلے۔
اب اگلی نسلیں بھی اس خاک کو چھونے کی آس لگائے بیٹھی ہیں، جس خاک نے ان کے بزرگوں کے قدموں کو چھوا تھا۔
دن ڈھلے اس مقام پر، عین بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب ہوتی ہے۔ دونوں اطراف کافی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ رینجرز اور بی ایس ایف کے اہلکار پریڈ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ملی نغمے بجتے ہیں، نعرے فلک کو شگاف ڈال دیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے باوردی جوان آنکھوں میں نفرت اور غصے کی سرخی بھر کر ایک دوسرے کو گھوریاں ڈالتے ہیں۔ دھمکی کے انداز میں ایک دوسرے کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں۔ پاوں سر سے اونچا اٹھا کر زمیں پہ پٹختے ہیں۔ ناظرین کا خون گرماتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے لوگ قریب ہی، چند میٹرز کے فاصلے پر آمنے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر سکتے۔ ایک جیسے نظر آنے والے لوگ، وہی گہری گندمی رنگت، کالے سفید بال، ایک سی چال ڈھال لیکن یہ چند میٹرز کا فاصلہ، عمروں کا سفر، بیچ میں بحر اوقیانوس حائل ہو جیسے۔
سوچتا ہوں، روز دن ڈھلے، خاردار تار کے پاس، پرچم اتارنے کی تقریب میں انڈیا پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کر لیا کریں تو کتنا اچھا ہو۔ ایک سے نظر آنے والوں کو معلوم پڑے کہ ہماری بولی بھی ایک جیسی ہے۔ جیون کے دکھ درد بھی ملتے جلتے ہیں اور کبھی ہمارے علاقے بھی ایک ہوا کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ مل کر ایک ہی گاؤں میں رین بسیرا کرتے تھے۔
لیکن یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔ یہ ڈھلتے سورج کی سنہری دھوپ سا خواب ہے جو اس پل تو ہے، اگلے پل نہیں۔
لیکن خاردار تار کے پاس کھڑے ہو کر خواب دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔ خوابوں کو تو یہ تار نہیں روک سکتی، سپنوں کو تو کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
وہ سامنے انڈین پنجاب میں لگے پیڑ دکھائی دے رہے ہیں۔ وہی کیکر، ٹاہلی، بیری کے پیڑ، جو ہماری طرف ہیں۔ ابھی، جس پون کے جھونکے نے ان کی شاخوں پتوں کو ہلایا ہے اور وہ سردار جی کی قیصری رنگ کی پگڑی کو چھو کر آ رہا ہے، وہی جھونکا اب ہمارے تن بدن کا لمس لے کر ہمارے درختوں کے پتوں کو ہوا دے رہا ہے۔
وہ دیکھو کتنے پنچھی انڈین کسان کے کھیت سے اڑ کر آئے ہیں اور سرحد پار کر کے ہمارے کھیتوں میں اتر گئے ہیں۔ یہ چڑیا ابھی یہاں سے اڑ کر انڈین چوکی کے پاس اونچے سفیدے پہ جا بیٹھی ہے۔ ہندوستانی بچوں کی کھلکھلاہٹ کی صدا ہمارے کانوں سے آ ٹکرائی ہے۔ ہمارے سبز و سفید جھنڈے کی پرچھائی بارڈر پار کر کے سیڑھیوں پہ بیٹھے انڈینز کے سامنے چبوترے پر لہرا رہی ہے۔
ان کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟
وہ سامنے کوئی چھوٹا سا گاؤں نظر آ رہا ہے۔ گردوارے کی سفید عمارت ڈھلتے سورج کی آخری کرنوں سے جگمگا رہی ہے۔ ڈوبتے سورج کی چند کرنیں پلٹ کر گردوارے کے گنبد سے پل دو پل کے لیے لپٹ گئی ہیں۔ کتنی قریب ہے یہ بستی۔
فاصلے تو زیادہ نہیں، بس ہم سے یہ فاصلے طے نا ہوئے، کیوں نا ہوئے؟
کیوں کہ ہم نا تو پنچھی پکھیرو ہیں نا ہی ستلج ندیا ہیں۔ نا ہم پون کے جھونکے ہیں نا ہی ڈھلتی پرچھائیاں۔ ہم نا کھیلتے بچوں کے قہقہے ہیں نا پتوں سے گزرتی سرسراہٹ۔ ہم نا گردوارے کے اسپیکر سے اٹھتی پاٹھ کی صدا ہیں اور نا ہی مسجد کے مینار سے بلند ہوتی اذاں، ہم تو انسان ہیں اور یہ سرحدیں ہم انسانوں نے اپنے لیے ہی تو بنائی ہیں۔
پریڈ ختم ہو گئی تھی۔ پرچم لپیٹ لیے گئے تھے۔ انڈیا پاکستان دونوں اطراف کا مجمع بکھر گیا تھا۔ پنڈال خالی خالی سا، چپ چپ سا رہ گیا تھا۔
ہم واپس آ رہے تھے۔ ''دہلی 424 کلومیٹر‘‘ والے سنگ میل پر اندھیرا چھا رہا تھا۔ ستلج کی پل سے گزرتی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس سے اس بورڈ کے حروف جگمگا رہے تھے، جس پہ لکھا تھا، ''آگے راستہ بند ہے۔ یہ شارع عام نہیں ہے۔‘‘
ستلج کے پانیوں میں سورج کہیں ڈوب گیا تھا۔ اس کی سنہری کرنیں بھی ڈوب کر مر گئی تھیں۔ آسمان کی سیاہ چادر پہ چاند کی پرچھائی بھی نا تھی، ہر سو گھپ اندھیری رات پھیل گئی تھی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔