1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھ خلیجی عرب ریاستوں میں یہودی برادریوں کا علاقائی اتحاد

16 فروری 2021

خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں آباد یہودی برادریوں نے اسرائیل اور خطے کے ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر اپنا ایک اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اس تنظیم کو ایسوسی ایشن آف گلف جیوئش کمیونیٹیز (اے جی جے سی) کا نام دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pQDI
Saudi-Arabien I Hanukkah Fest in Dubai
تصویر: Karim Sahib/AFP/Getty Images

گزشتہ برس متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے کے فیصلوں کے بعد سے اسرائیل اور خلیجی عرب ریاستون کے باہمی روابط میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں سے مسلسل گرم جوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ایرانی جوہری سائنسدان کو ’اسرائیلی انٹیلیجنس موساد‘ نے قتل کروایا

یہ پیش رفت اسی گرم جوشی کا نتیجہ ہے کہ اب تیل سے مالا مال ان عرب ممالک میں یہودی برادریوں نے اپنی ثقافت کے فروغ کے لیے اپنے اپنے ممالک کی قومی سرحدوں سے باہر تک پھیلا ہوا ایک علاقائی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

'یہودی طرز زندگی کا فروغ‘

ایسوسی ایشن آف گلف جیوئش کمیونیٹیز (AGJC) بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، قطر اور عمان میں آباد یہودی برادریوں کی نمائندگی کرے گی۔ خطے کے یہی چھ ملک ایسے ہیں، جنہوں نے حکومتی سطح پر باہمی تعاون کے فروغ کے لیے پہلے ہی خلیجی تعاون کونسل یا جی سی سی کے نام سے اپنی ایک علاقائی تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے۔

چور نے چوری کے لیے گھر کے تمام افراد کو ہسپتال کیسے بھیجا؟

Israel Bahrain Hanukkah Fest
بحرین میں یہودیوں کی مذہبی تعطیلات پہلے ہی باقاعدہ طور پر منائی جاتی ہیں تصویر: Ronen Zvulun/picture alliance/AP Photo

گلف جیوئش کمیونیٹیز ایسوسی ایشن کی طرف سے پیر کی رات جاری کردہ پہلے بیان میں کہا گیا کہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ان چھ ممالک میں 'یہودی طرز زندگی کو اس طرح فروغ دینا ہے کہ وہ مقامی باشندوں اور غیر ملکی مہمانوں دونوں کے لیے سود مند‘ ثابت ہو سکے۔

فلسطینی علاقوں میں ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم: عالمی عدالت میں تحقیقات کی راہ ہموار

یہ تنظیم ایک ایسے وقت پر قائم کی گئی ہے جب اس پورے خطے میں حکومتیں یہودی باشندوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں گرم جوشی کے عملی اشارے دے رہی ہیں۔

بین المذاہب مکالمت

خلیجی عرب ریاستوں میں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین دو ایسے ممالک ہیں، جو اب تک نا صرف اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کر چکے ہیں بلکہ وہ اس بارے میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین بین المذاہب مکالمت شروع کی جانا چاہیے۔

مذہب اور سیاست: پوٹن، مودی، ایردوآن اور نیتن یاہو میں مشترک کیا؟

بحرین میں یہودیوں کی مذہبی تعطیلات تو پہلے ہی باقاعدہ طور پر منائی جاتی ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات میں بھی یہودیوں برادری کے ارکان کی تعداد تقریباﹰ تین ہزار بنتی ہے۔

USA Washington Weißes Haus | Abkommen Naher Osten
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کے قیام کے معاہدے پر دستخط وائٹ ہاؤس میں گزشتہ برس ستمبر میں کیے تھےتصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb

قطر اور سعودی عرب بھی پیچھے نہیں

خلیجی ریاست قطر کو 2022ء میں ہونے والے فٹ بال کے عالمی کپ مقابلوں کی میزبانی کرنا ہے اور اس کے لیے بھرپور تیاریاں کئی برسوں سے جاری ہیں۔

کوسووو نے بھی اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے

قطر کی طرف سے اب یہ وعدہ بھی کیا جا چکا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران اس کی طرف سے یہودیوں کے لیے خاص طور پر 'کوشر‘ یا مذہبی طور پر حلال خوراک کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔

خطے کی سب سے بڑی سیاسی اور اقتصادی طاقت سعودی عرب ہے، جو دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی معاشرہ سخت گیر اسلامی سوچ کا حامل ہے، مگر وہاں بھی یہودی برادری کے نمائندوں اور اداروں کے ساتھ مکالمت کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی فوجی سربراہ کا ایران پر حملہ کرنے کے نئے منصوبوں کی تیاری کا حکم

یہودی شرعی عدالت کے قیام کی خواہش

خلیجی یہودی برادریوں کی تنظیم نے کہا ہے کہ اس کا ارادہ ہے کہ خلیج کے علاقے میں یہودیوں کی ایک ایسی شرعی عدالت بھی قائم کی جائے، جو 'بیت دین‘ یا 'ایوان انصاف‘ کہلاتی ہے اور بہت سے معاملات میں اس مذہبی عدالت کے فیصلوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

سعودی عرب کی ڈاکار ریلی میں دس اسرائیلی شہریوں کی شرکت

اے جی جے سی کے مطابق یہ یہودی شرعی عدالت خطے میں یہودیوں کے مابین آپس میں پیدا ہونے والے کاروباری جھگڑوں اور وراثت سے متعلق تنازعات میں حتمی فیصلے سنا سکے گی۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں تیار کردہ اسرائیلی شراب متحدہ عرب امارات میں

یہ تنظیم خلیجی عرب ریاستوں میں آئندہ یہودیوں کے لیے معیاری طور پر حلال یا 'کوشر‘ خوراک سے متعلق سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خطے میں آباد یہودیوں اور یہودی سیاحوں کے لیے روزمرہ زندگی میں آسانی لائی جا سکے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)