چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیا کر سکے۔ کیا نہ کر سکے
11 دسمبر 2013جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حامی حلقےمضبوط عدالتی نظام بنانے، تاریخ ساز عدالتی فیصلے سنانے، عدلیہ کے لیے ضابطہ اخلاق بنانے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے، بدعنوانیوں کے خاتمے، اچھی حکمرانی کو فروغ دینے، سرکاری افسران کے معاملات کے سیاسی اثرات سے پاک کرنے اور ریاست کے طاقتور عناصر کو قانون کے سامنے جواب دہ بنانے میں ان کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں، وہ ریکوڈک، این آئی سی ایل، لاپتہ افراد، جعلی ڈگریوں، دوہری شہریت ، حج کے انتظامی امور میں کرپشن، رینٹل پاور،اور کراچی میں بدامنی کے حوالے سے مقدمات میں بھی ان کی کارکردگی کو سراہ رہے ہیں۔
دوسری طرف جسٹس افتخار چوہدری کے مخالف حلقے ان پر ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کرنے، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی نہ بنا سکنے، چھوٹی عدالتوں میں بدعنوانیوں کاخاتمہ نہ کر سکنے اور وکلا کی بڑی تعداد کی توقعات پر پورا نہ اترنے کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے از خود نوٹسز لینے کے اختیارات کے بے دریغ استعمال کے حوالے سے بھی متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔
پاکستان کے معروف سیاست دان شیخ رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تاریخ جسٹس افتخار کومثبت اور منفی دونوں حوالوں سے یاد رکھے گی، عدلیہ کا وقار بلند کرنے، قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے ،کرپشن کو روکنےاو لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کے حوالے سے ان کی خدمات کومثبت انداز میں یاد رکھا جائے گا لیکن مشرف کے مارشل لا، ریفرنڈم اور حالیہ الیکشن کے نتائج کو درست قرار دینے کے ان کے اقدامات کو اچھا نہیں سمجھا جائے گا ، ان کے بقول جسٹس افتخار کے بیٹے پر لگنے والے الزامات بھی تکلیف دہ تاثر پیدا کرتے رہیں گے۔
معروف صحافی نذیر ناجی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جسٹس افتخار کو میڈیا اور سیاست کے ایک مخصوص حصے کی حمایت میسر تھی اس لیے ان کی خامیاں پوری طرح لوگوں کے سامنے نہیں آ سکیں جبکہ ان کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول بدھ کے روز جسٹس افتخار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں ایک مخصوص میڈیا گروپ کو ہی اجازت دینے سے بھی ان کی جانب داری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عسکری تجزیہ نگار فاروق حمید خان کا کہنا تھا کے جسٹس افتخار چوہدری کے جانے سے پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کا ایک سنہری باب بند ہو گیا ہے، ان کے مطابق انہوں نے پاکستانی حالات پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اصغر خان کیس، این آر او کیس، لاپتہ افراد والا کیس اور مشرف کے خلاف ارٹیکل سکس والا کیس ان کی جرات اور دلیری کی درخشاں مثالیں ہیں۔ انہوں نے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا اور ریاست کے با اثر طبقات کو قانون کے سامنے لا کھڑا کیا۔
روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایاز خان کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری سیاسی کیسز میں زیادہ مشغول رہے، عدالتی اصلاحات پر زیادہ عمل نہ ہو سکا اور عوامی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ ان کے بقول جسٹس افتخار کے دور میں فیصلے کم بولے لیکن جج بولتے رہے، اب توقع کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں عدلیہ کے فیصلے ہی بولا کریں گے۔
پاکستان کے ممتاز قانون دان عابد حسن منٹو کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری جذبات کی لہر جب ختم ہوگی تو لوگوں کو احساس ہو گا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے کتنی شاندار خدمات تھیں، ان کے بقول جسٹس افتخار نے غیر معمولی حالات میں کام کیا، جس ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت پیدا کرنے کو تیار نہ ہوں، جہاں اچھی حکمرانی کا فقدان ہو، جہاں کرپشن عام ہو اس ماحول میں عدالتی فعالیت سے ہی کام چلانا پڑتا ہے اور اس میں افراط و تفریط کے امکانات رہتے ہیں، ان کے بقول جسٹس افتخار ان ایشوز کو بھی قانون کے سامنے لائے جن کو ماضی میں کوئی ہاتھ لگانے کی جرات بھی نہیں کرتا تھا۔
اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ جسٹس افتخارکے بعد ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ ماحول میں کوئی تبدیلی آ جائے لیکن توقع ہے کہ سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے کمپرومائز نہیں کرے گی۔