’غیر جانبدار، غیر جماعتی کمیشن بنائیں گے،‘ شہباز شریف
28 مارچ 2024اس فیصلے کا اعلان وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد کیا۔ اس ملاقات اور کمیشن کے اعلان کی کچھ حلقوں کی طرف سے ستائش ہورہی جبکہ کچھ مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔
پاکستانتحریک انصاف نے بھی اس خط کے حوالے سے اپنی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ پاکستان بار کونسل نے بھی پانچ اپریل کو اپنی ایگزیکیٹیو کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کی پریس کانفرنس
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خط کو کل بروز جمعہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ زیادہ تر الزامات کا تعلق سابق چیف جسٹس کے دور سے ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ملاقات فائز عیسی کی خواہش پر ہوئی اور یہ کہ وزیراعظم نے اپنی تمام دوسری مصروفیات ترک کر کے اس مسئلے کو ترجیح دی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اس مسئلے پہ تفتیش کی یقین دہانی کرائی اور وزیراعظم ایک غیر جانبدار اور غیر جماعتی کمیشن بنائیں گے جس میں ریٹائرڈ قانونی ماہرین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ تحقیقات کے بعد کمیشن اپنی رپورٹ قانون کے مطابق جمع کرائے گا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وہ اور اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر کام کریں گے اور یہ صرف ان واقعات پر نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے حوالے سے نوٹیفکیشن دو سے چار دن میں وفاقی کابینہ کی اجلاس کے بعد سامنے آئے گا۔
ملاقات کا خیر مقدم
اس ملاقات کو مختلف حلقوں کی طرف سے سراہا بھی جا رہا ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانونی ماہرکرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے عدلیہ اور ایگزیکٹیو کے درمیان تعاون بڑھے گا، جو جمہوریت کے لیے مثبت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات سے مداخلت کرنے والوں کو یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ اس طرح کی مداخلت پر صرف جج ہی ناراض نہیں ہیں بلکہ حکومت بھی ایسی کسی مداخلت کے حق میں نہیں ہے۔‘‘
مداخلت وقتی طور پر رک سکتی ہے
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق اس ملاقات کا ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بھی اثر ہو سکتا ہے۔ ''میرے خیال میں اس طرح کی مداخلت کیونکہ ہر وقت چلتی رہتی ہے تو اس ملاقات کی وجہ سے وہ مداخلت کم از کم وقتی طور پر رک جائے گی اور ممکنہ طور پر طاقتور ایجنسی کو کم از کم یہ یقین دہانی ضرور کرانا ہوگی کہ وہ مستقبل میں اس طرح کی مداخلت نہیں کرے گی۔‘‘
عدلیہ کے وقار میں اضافہ
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے بھی اس ملاقات کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیراعظم چیف جسٹس سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ آئے، جس سے عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' لیکن اس ملاقات کے بعد اہم سوال یہ ہے کہ اس کمیشن کے اجزائے ترکیبی کیا ہوں گے؟ اس کے اندر انتظامیہ کے کتنے لوگ ہوں گے اور عدلیہ سے کتنے لوگ ہوں گے؟
جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق اس کمیشن میں اراکین کی اکثریت ایسی ہونی چاہیے جسسے عدلیہ اور وکلا برادری کی حمایت حاصل ہو۔ ''اگر اس میں اکثریت ایسے افراد کی نہیں ہوئی تو پھر یہ کمیشن ممکنہ طور پر طاقتور جاسوسی ادارے کو کلین چٹ دے سکتی ہے جس کا وکلا برادری کی طرف سے بہت سخت رد عمل آسکتا ہے۔‘‘
مایوس کن فیصلہ
جہاں کئی حلقے اس ملاقات کو مثبت قرار دے رہے ہیں وہاں پاکستان تحریک انصاف اس کو مایوس کن قرار دے رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کمیشن کی تشکیل صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور اس سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔‘‘
شہر یار آفریدی کے بقول، ''یہ وزیراعظم کٹھ پتلی ہے اور یہ عدلیہ پہ دباؤ ڈالنے کے مزید ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت ججوں کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک سخت موقف نہیں اپنایا، تو عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن جائے گی۔
تحریک انصاف کے ایک اور رہنما خرم شیر زمان نے خط وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کے عمل کو مایوس کن قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے ٹرمز آف ریفرنس حکومت تیار کرے گی اور وہ ججوں کو ہراساں کرنے کے مسئلے کی تحقیقات نہیں کر پائے گی۔‘‘
'امید خام خیالی ہے‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ اس کمیشن سے کوئی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اُمید کرنا خام خیالی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شہباز شریف ایک انتہائی کمزور وزیراعظم ہیں اور ان سے یہ اُمید کرنا کہ وہ ایک ایسے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروایں گے، جس میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہو بہت مشکل ہے۔‘‘