چیمپئنز ٹرافی کا مرحلہ شروع
1 جون 2017آئندہ عالمی کپ میں پاکستان کی براہ راست رسائی کا دارومدار اس چیمپئن شپ میں کچھ کر گزرنے پر ہے لیکن تاحال ٹیم کی بیٹنگ کا کوئی سر پیر نظر نہیں آ رہا جبکہ بولنگ اٹیک کا معمہ اپنی جگہ حل طلب ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم ابھی تک سلیکشن، ایکشن، ری ایکشن اور فٹنس کے مسائل میں ہی بری طرح الجھی ہوئی ہے۔
چار جون کو پاکستان کو اپنا پہلا میچ بھارت کے خلاف کھیلنا ہے البتہ غیر تسلی بخش تیاری اور متضاد حقیقتیں دیکھ کر ایک دو نہیں بلکہ کئی سوالات دل و دماغ میں ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخی فتح اور مصباح کے لیے تاریخی الوداعی تحفہ
کیا یونس اور مصباح ساٹھ سالہ تاریخ بدل پائیں گے؟
چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی عدم شمولیت سے نقصان کس کو؟
نمبر چھ پر کون کھیلے گا؟
عمراکمل کی انوکھے فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی پر ان کے متبادل حارث سہیل برمنگھم جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ حارث سہیل بائیں ہاتھ کے ایک پرکشش اور خداداد صلاحیتوں سے مالا مال بیٹسمین ہیں۔ لیکن دو سال بعد ٹیم میں واپسی پر وہ کہاں کھیلیں گے؟
پاکستان کا سب سے بڑا درد سر نمبر چھ پوزیشن ہے، جہاں وقت ضائع کیے بغیر چوکوں چھکوں کے بغیر بات نہیں بنتی۔ حارث سہیل نے اپنے کیرئیر میں صرف ایک اننگز چھ پر کھیلی ہے جبکہ نمبر چار اور پانچ پوزیشن پر وہ ہمیشہ زیادہ کارگر رہے، جہاں ان کی بیٹنگ اوسط پچاس سے زائد ہو جاتی ہے۔ اب بھی ٹیم کے لیے بہتر یہی ہوگا لیکن کیا ٹیم انتظامیہ محمد حفیظ یا شعیب ملک کو اپنی جگہ سے سرکانے کا حوصلہ مول لے گی؟
شعیب ملک نے اپنے کیرئیر میں ایک سے گیارہ تک ہر نمبر پر بیٹنگ کی ہے لیکن نمبر چھ پر جا کر فورا مار دھاڑ کرنا اب بڑھتی ہوئی عمر میں ان کے بس کا روگ نہیں دکھتا اور رہی بات محمد حفیظ کی تو چودہ سال بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے بعد بھی ان پر ایک میچ ونر ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی وہ کبھی ٹیم یا ایک نوجوان کی خاطر خود کو 'ڈی موٹ' کرنا گوارہ کریں گے۔
عمراکمل کے ساتھ کیا ہوا؟
عمر اکمل ان لوگوں میں سے ہیں جو خود آگ لگا کر اپنے ہاتھ جلا لیتے ہیں۔ پہلے سلیکٹرز نے بڑے بھائی کامران اکمل کو باہر کر کے ان کی جگہ حیران کن طور پر اظہر علی کو دے دی، جو ایک روزہ کرکٹ میں چھ سال میں بھی خود کو نہیں
منوا سکے اور اب عمر اکمل کو فٹنس کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ٹیم میں منتخب ہونے اور بیرون ملک جانے کے بعد کسی کرکٹر کا فٹنس ٹیسٹ لیا گیا ہو اور پھر اسے کوچ نے واپس وطن بھیج دیا ہو۔
اب پاکستان میں ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ عمر اکمل جب ان فٹ تھے تو وہ ٹیم میں کیسے شامل ہو گئے؟ پاکستانی میڈیا نینشل اکیڈمی کے ٹرینٹر اور چیف سلیکٹر کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ مکی آرتھر اور انضمام الحق کے درمیان اس بات پر اختلافات کی خبروں کو بھی ہوا مل رہی ہے۔
نینشل اکیڈمی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عمر اکمل کا فٹنس ٹیسٹ ایک ماہ پہلے ہوا تھا، جو انہوں نے پاس کر لیا۔ فٹنس ٹیسٹ سے پہلے عمر روزانہ باقاعدگی سے نیشنل اکیڈمی ٹریننگ کے لیے آتے تھے لیکن ٹیم میں نام آنے کے بعد وہ ایک دن بھی این سی اے نہیں آئے۔
عمر اکمل نے چیمپئنز ٹرافی کے لیے لگائے گئے تربیتی کیمپ سے بھی اپنے ہونے والے بچے کی خاطر چھٹی لے لی تھی۔ اب چار ہفتے بعد وہ برمنگھم جا کر فٹنس ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا تو اس میں ٹرینٹر یا سلیکٹر کا کیا قصور ہے۔
کپتان سرفراز کہاں کھیلیں گے؟
سرفراز احمد ناصرف پہلی بار چیمپئنز ٹرافی کھیل رہے بلکہ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بھی کوئی پہلا آئی سی سی ٹورنامنٹ کھیل رہی ہے۔ سابق کپتان رمیز حسن راجہ نے سرفراز کو مشورہ دیا ہے کہ بھارت کو ہرانے کے لیے وہ ابتدائی نمبروں پر بیٹنگ کریں۔
رمیز راجہ کے مطابق کپتان کو ون ڈاون یا چار پر کھیلنا ہو گا۔ حال ہی میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے کپتان مصباح الحق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بہتر ہوگا سرفراز احمد خود بھارت کے خلاف اوپننگ کریں۔ سرفراز احمد نے جن نو میچوں میں اوپننگ کی تھی ان میں سرفراز کی اوسط 43 کی ہے۔
کیا پاکستان چار فاسٹ بولرز کھلائے گا؟
پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ نے برمنگھم میں جاری ٹیم کے تربیتی کیمپ میں فاسٹ بولر محمد عباس کو بھی بلا رکھا ہے، تاہم ان کا حتمی سکواڈ میں جگہ بنانا قرین قیاس نہیں۔ عباس نے ویسٹ انڈیز میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں 15 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب پاکستانی پیسر تھے۔
عام خیال یہی ہے کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف چار فاسٹ بولرز کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے اور ظاہر ہے کہ طویل قامت محمد عباس جو اسپیڈ سے زیادہ گیند کو سیم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، انگلینڈ کے سرد سرمئی موسم میں محمد عامر کے بہترین پارٹنر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد وہاب ریاض اور حسن علی آئیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ محمد عباس کو کس کی جگہ ٹیم میں شامل کیا جائے؟ ممکن ہے جنید خان کی۔ 25 مئی تک پی سی بی ٹیم میں تبدیلی کا مجاز ہے لیکن اس کے بعد کسی کھلاڑی کے ان فٹ ہونے پر ہی ایسا ہوسکتا ہے۔
شاداب خان کا کوئی کردار ہو گا؟
نئے لیگ اسپننگ آل راؤنڈر شاداب خان کے متعلق اطلاعات ہیں کہ وہ کمر کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور ان کے مکمل فٹ ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے پاکستان کو ابتدائی میچوں میں عماد وسیم، محمد حفیظ اور شعیب ملک کے ہوتے ہوئے ان کی ضرورت نہ ہو لیکن اگے چل کر ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل اور فائنل مرحلے میں وہ ٹیم کے کام آسکتے ہیں۔
چیمپئنز ٹرافی تین مقامات اوول، ایجبسٹن اور کارڈف میں ہو رہی ہے، اس لیے سینٹر وکٹ سکوائر پر مسلسل میچز ہونے سے آخری دنوں میں ان پچز پر اسپنر کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔